BBCایران کے شہر قم میں والدین نے طالبات کو زہر دینے کے واقعات کے خلاف احتجاج کیا
بی بی سی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران میں مختلف واقعات میں سکول جانے والی کم از کم 650 طالبات کو زہر دیا گیا اور اس ضمن میں ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار نے اعتراف کیا ہے کہ لڑکیوں کو دانستہ طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان میں سے کسی بھی طالبہ کی موت نہیں ہوئی لیکن درجنوں کو سانس کی تکلیف، متلی، چکر آنے اور تھکاوٹ کے باعث ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔
ایران کے نائب وزیر صحت یونس پناہی نے 26 فروری کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ واضح ہے کہ کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ تمام سکول، خاص طور پر لڑکیوں کے سکول، بند کر دیے جائیں۔‘
اب تک اس ضمن میں سرکاری بیان میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ پراسیکیوٹر جنرل نے زہر دینے کے واقعات کی مجرمانہ تحقیقات شروع کی ہیں اور یہ کہ یہ ’دانستہ‘ طور پر کیا جانے والا عمل ہو سکتا ہے۔
پچھلے تین ماہ کے دوران سکول کی طالبات نے بیمار ہونے سے پہلے سڑی ہوئی مچھلی کی بو کی اطلاع دی۔
ڈاکٹر پناہی نے مزید کہا کہ ’استعمال کیے جانے والا کیمیکل فوجی سطح کا نہیں بلکہ یہ عوامی طور پر دستیاب ہے۔ طالبات کو کسی زیادہ علاج کی ضرورت نہیں پڑی اور ایسے میں پرسکون رہنا ضروری ہے۔‘
ڈاکٹر پناہی نے بعد میں کہا کہ ان کے بیان کی ’غلط تشریح‘ کی گئی تھی جو کہ حکام کے اندر تقسیم رائے کی علامت ظاہر کرتا ہے کہ جب عوامی طور پر کسی مجرم کا نام نہیں لیا گیا تو عوامی غصے کو کیسے سنبھالا جائے گا۔
مذہبی شہر قم بڑے پیمانے پر زہر سے متاثر ہونے والی طالبات کا مرکز ہے لیکن ایران کے آٹھ دیگر شہروں میں بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں، جس کے بعد عوام کے غم و غصے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
زہر دینے کا پہلا واقعہ 30 نومبر سنہ 2022 کو سامنے آیا، جب قم کے نور ٹیکنیکل سکول کی 18 طالبہ میں زہر کی علامات ظاہر ہونے پر انھیں ہسپتال لے جایا گیا۔ اس وقت سے اب تک صوبے میں لڑکیوں کے 10 سے زائد سکولوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
فروری کے وسط میں کم از کم 100 افراد نے قم میں گورنر کے دفتر کے باہر احتجاج کیا۔
ایک باپ کو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی ویڈیو میں چیخ کر کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’آپ میرے بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے پابند ہیں۔ میری دو بیٹیاں ہیں، دو بیٹیاں اور میں صرف اتنا کر سکتا ہوں کہ میں انھیں سکول نہ جانے دوں۔‘
اسی جگہ ایک خاتون نے کہا کہ ’یہ جنگ ہے۔ وہ قم کے ایک گرلز ہائی سکول میں ایسا کر رہے ہیں تاکہ ہمیں گھر بیٹھنے پر مجبور کر دیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لڑکیاں گھر میں رہیں۔‘
کچھ والدین کا کہنا ہے کہ زہر کے بعد ان کے بچے ہفتوں تک بیمار رہے۔
ایک ہسپتال کی ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک نوعمر لڑکی اپنی ماں کے پاس بستر پر بدحواسی کے عالم میں لیٹی ہے۔
اس لڑکی کی پریشان ماں کہتی ہیں کہ ’میں ایک ماں ہوں اور میری بچی ہسپتال کے بستر پر ہے اور اس کے اعضا کمزور ہیں۔ اسے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ براہ کرم اپنے بچوں کو سکول مت بھیجیں۔‘
مذہبی مرکز
یہ واقعات قم میں ہوئے ہیں، جو مذہب اسلام کے شیعہ مذہبی رہنماؤں کا گڑھ ہے اور اسے اسلامی جمہوریہ کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔
لیکن گذشتہ ستمبر میں مبینہ طور پر اپنا سکارف ’صحیح طریقے سے‘ نہ پہننے کی وجہ سے پولیس حراست میں ایک نوجوان کرد خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد سے ان کی طاقت کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔
کچھ ایرانی حیران ہیں کہ کہیں نوجوان لڑکیوں پر حملہ مہسا امینی کے بعد ہونے والے حکومت مخالف زبردست مظاہروں میں ان کے کردار کا ’بدلہ‘ تو نہیں۔
یہ بھی پڑھیے
مہسا امینی کے والد امجد امینی: ’میں اپنی بیٹی کو دیکھنا چاہتا تھا لیکن ڈاکٹروں نے مجھے اندر جانے نہیں دیا ‘
ایران احتجاج: سکول کی طالبات نے سرکاری اہلکار کو تقریر نہیں کرنے دی
ایران میں احتجاج کیا حکومت کی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے؟
سوشل میڈیا پر سکول کی طالبات کی جانب سے اپنے سر سے سکارف نکال پھینکنے کی تصاویر بھری ہوئی تھیں۔
بہت سے لوگوں نے یہ قیاس آرائی بھی کی ہے کہ یہ حملے سخت گیر لوگوں کا کام ہیں جو افغانستان میں طالبان اور نائیجیریا میں شدت پسند گروپ بوکو حرام کو ’کاپی‘ کرنا چاہتے ہیں تاکہ والدین دہشت زدہ ہو کر اپنی لڑکیوں کو سکول بھیجنا بند کر دیں۔
ایران کے سابق نائب صدر محمد علی عبطحی نے ایک انسٹاگرام پوسٹ میں پوچھا کہ ’کیا بوکو حرام ایران آ گئی ہے؟‘
ایرانی حکومت نے روایتی طور پر خواتین کے لیے لازمی سکارف کی پابندی پر تنقید کو مسترد کیا ہے جبکہ یونیورسٹی جانے والی ایرانی خواتین کی تعداد پر فخر کیا ہے لیکن اگر نوجوان لڑکیاں سکول ہی مکمل نہیں کرتیں تو پھر کالج تو ایک خواب ہی رہ جائے گا۔
ایک سکول کی طالبہ کا کہنا ہے کہ انھیں دو بار زہر دیا گیا۔ انھوں نے قم کے گورنر کے ساتھ ملاقات میں اس بات پر روشنی ڈالی کہ حکام کے کچھ بیانات انتہائی گمراہ کن ہیں۔
طالبہ نے گورنر کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ ’وہ [افسران] ہمیں بتاتے ہیں کہ سب اچھا ہے، ہم نے اپنی تحقیقات کر لی ہیں لیکن جب میرے والد نے میرے سکول میں پوچھا تو انھوں نے معذرت کر لی کہ سی سی ٹی وی ایک ہفتے سے بند ہے اور ہم اس کی تحقیقات نہیں کر سکتے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ اور جب اتوار کو مجھے دوسری بار زہر دیا گیا تو سکول کے پرنسپل نے کہا کہ اسے دل کی بیماری ہے، اس لیے وہ ہسپتال میں داخل کرائی گئي ہیں لیکن مجھے دل کی کوئی بیماری نہیں۔‘