Getty Images
’یہ میرا خواب تھا اور مجھے اس کا علم تھا کہ میری شخصیت اس وقت مکمل ہوگی جب میں کسی اچھے ادارے میں تعلیم حاصل کروں گی۔‘
یہ الفاظ ہیں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر صوابی کی رہائشی شبانہ امان کے، جو تین بچوں کی والدہ ہیں اور وومین یونیورسٹی آف صوابی سے بیچلر آف سائنسز کی ڈگری حاصل کر رہی ہیں۔
ان کے لیے ایک لمبے عرصے کے بعد تعلیم کا حصول اس لیے ممکن ہوا کیونکہ وومین یونیورسٹی آف صوابی نے اب داخلے کے لیے عمر کی حد ختم کر دی ہے یعنی اب کسی بھی عمر کی خواتین یونیورسٹی میں داخلہ لے سکتی ہیں۔
یہ فیصلہ ان خواتین کے لیے کیا گیا، جو شادی یا مالی حالات کی وجہ سے تعلیم مکمل نہیں کر پائیں اور اب وہ تعلیم دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہیں۔
شبانہ امان کہتی ہیں کہ ’گھر میں بیٹھ کر کتابیں پڑھ لینے سے آپ کی مکمل تربیت نہیں ہوتی بلکہ تربیت اور شخصیت کسی اچھے ادارے میں جا کر تعلیم حاصل کرنے سے بنتی ہے۔‘
شبانہ امان نے شادی سے پہلے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی اور پھر سال 2018 میں انھوں نے انٹرمیڈیٹ کرنے کے لیے کالج میں داخلہ لیا تھا۔
Getty Images’شوہر ساتھ دے تو عورت کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی‘
شبانہ امان نے بتایا کہ خاندان کے کچھ افراد نے ان کے اس فیصلے کی مخالفت کی اور کہا کہ کیا ضرورت ہے کہ یہ اب اس عمر میں تعلیم حاصل کرنے جا رہی ہے اور اس سے کیا ہو گا لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایسا وقت تھا جب میرے شوہر نے میری حمایت کی اور جب کسی عورت کا شوہر اس کا ساتھ دیتا ہے تو اس کے لیے کچھ بھی رکاوٹ نہیں ہوتی۔‘
’میرے شوہر نے اس وقت کہا کہ تعلیم ہی تو حاصل کرنے جا رہی ہے کچھ اور تو نہیں کر رہی۔ اگر تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہے تو اسے پورا کرنا چاہیے یہ میرے لیے بہت حوصلہ افزا بات تھی کیونکہ میرے شوہر میرے لیے ایک ڈھال بن کر سامنے آئے۔‘
شبانہ نے بتایا کہ جب وہ انٹرمیڈیٹ کر رہی تھیں تو اس وقت بچیاں چھوٹی تھیں اس لیے وہ آگے تعلیم جاری نہ رکھ سکیں لیکن اب وہ اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھائیں گی۔
’عمر زیادہ ہے آپ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں‘
شبانہ نے بتایا کہ یونیورسٹی میں اس فیصلے سے پہلے انھیں مشروط داخلہ دے دیا گیا تھا کیونکہ ان کی عمر بی ایس میں داخلے کے لیے مقرر عمر سے زیادہ تھی۔
’بی ایس میں داخلے کے لیے عمر کی حد 17 سال سے 23 سال تک ہوتی ہے اور میری عمر زیادہ تھی ۔ داخلہ مل گیا تھا اور میں بڑے شوق سے پڑھ رہی تھی کہ اچانک ایک دن مجھے کہا گیا کہ آپ اب آگے اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں کیونکہ آپ کی عمر زیادہ ہے۔‘
’یہ میرے لیے بہت تکلیف دہ تھا، میں اس دن روتی رہی۔ میں نے پھر یونیورسٹی سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ اگر آپ کو اتنا شوق ہے تو آپ یونیورسٹی آئیں تعلیم حاصل کریں لیکن آپ کو ڈگری نہیں دی جائے گی۔ میں نے یہ معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا اور کہا کہ تعلیم تو ضرور حاصل کروں۔‘
اب وومین یونیورسٹی آف صوابی کی اکیڈمک کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ عمر کی کوئی حد نہیں اور باقی خواتین کے لیے بھی یہ موقع ہے کہ وہ تعلیم پھر سے شروع کریں جنھوں نے کسی نہ کسی وجہ سے تعلیم چھوڑ دی تھی۔
Getty Imagesبڑی عمر کی لڑکیاں یونیورسٹی میں کیوں؟
یہ خاص طور پر ان علاقوں کے لیے اہم فیصلہ ہے، جہاں اکثر خواتین کی شادیاں جلد کر دی جاتی ہیں یا بیشتر لڑکیوں کو ابتدائی تعلیم کے بعد آگے پڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
اس بارے میں وومین یونیورسٹی آف صوابی کی وائس چانسلر شاہانہ عروج نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے پاس ایسی متعدد لڑکیاں آتی ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے تعلیم جاری نہیں رکھ پاتیں اور پھر شادی کے بعد شوہر سے بات چیت کر کے تعلیم جاری رکھنے کی خواہش ظاہر کرتی ہیں۔ اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا تاکہ ایسی لڑکیوں کو سہولت فراہم کی جا سکے۔¬
یونیورسٹی کی سطح پر خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں میں ایسی درخواستیں آتی ہیں جن میں عمر کی حد کے حوالے سے رعایت کی درخواست کی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں یونیورسٹی انتظامیہ کے لیے یہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ کچھ رعایت دے دیتے ہیں تو بڑی تعداد میں ایسی لڑکیاں بھی داخلے کے لیے آتی ہیں جن کی عمر میں رعایت دینے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا تھا ۔
شاہانہ عروج نے بتایا کہ اکیڈیمک کونسل میں اس بارے میں بات چیت ہوئی کیونکہ دو لڑکیوں کو میرٹ پر داخلہ دیا گیا تھا جن کی عمر کچھ زیادہ تھی لیکن وہ دونوں لڑکیاں محنتی اورذہین ہیں۔
شاہانہ عروج کہتی ہیں کہ انھوں نے بیرون ملک سے بھی تعلیم حاصل کی ہے اور ایسے میں ان کی شادی کے بعد بھی تعلیمی سلسلہ جاریرہا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’امریکہ میں بھی ایسا کچھ نہیں، لوگ کسی بھی عمر میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جیسا کہ پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخوا میں یہ مسئلہ ہے کہ عام طور پر میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے بعد لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور بیشتر کی شادیاں کرا دی جاتی ہیں۔ ’ان میں ایسی ذہین لڑکیاں بھی ہوتی ہیں جو اچھی پوزیشن حاصل کرسکتی ہیں۔ اس لیے اکیڈمک کونسل میں یہ مشترکہ فیصلہ ہوا کہ عمر کی حد ختم کر دینی چاہیے۔‘
یہ بھی پڑھیے
مغل سلطنت کی طاقتور خواتین جن کو غیر معمولی اختیارات حاصل تھے
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کو پشتون کلچر سے جوڑنے والے اپنے بیان پر معافی مانگ لی
افغانستان میں طالبان نے خواتین پر کب کون سی پابندیاں عائد کیں؟
شدت پسندی سے خواتین کی تعلیم متاثر
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا گیا جس سے بڑی تعداد میں سکول تباہ ہوئے اور اس وجہ سے بڑی تعداد میں بچے تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔
اسی طرح قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشنز کی وجہ سے لاکھوں افراد نے نقل مکانی کی اور اپنے آبائی علاقے چھوڑ دیے تھے جس وجہ سے بڑی تعداد میں بچوں کا تعلیمی سلسلہ متاثر ہوا۔
قبائلی علاقوں میں تعلیمی اداروں کے سروے کے مطابق 40 فیصد لڑکیاں پرائمری سکول میں داخل ہوتی ہیں جس میں سے مڈل کی تعلیم تک صرف تین فیصد پہنچ پاتی ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران دیگر شہروں کی طرح صوابی بھی بری طرح متاثر ہوا جہاں تشدد کے متعدد واقعات پیش آئے۔
صوابی میں سنہ 2013 میں ایک غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ ٹیچرز کی گاڑی پر حملہ کیا گیا تھا جس میں چھ ٹیچرز ہلاک ہو گئی تھیں۔
پشاور میں سال 2014 میں آرمی پبلک سکول پر حملے سے بھی اس صوبے میں بیشتر بچوں کا تعلیمی سلسلہ متاثر ہوا جب پورے صوبے میں خوف پھیل گیا تھا اور ان سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مسلح سکیورٹی گارڈز تعینات کر دیے گئے تھے۔