Getty Images
انڈیا کی ریاست کرناٹک کے ایک سخت گیر ہندو رہنما پرمود موتھلک نے ہندو نوجوانوں پر زور دیا ہے کہ اگر کوئی مسلم لڑکا کسی ہندو لڑکی سے شادی کرتا ہے یا اسے اپنی طرف راغب کرتا ہے تو اس کا انتقام لینے کے لیے وہ دس مسلم لڑکیوں کے ساتھ تعلق بنانے کی کوشش کریں۔
شری رام سینا کے سربراہ پرمود موتھلک نے ریاست کرناٹک کے علاقے باگل کوٹے میں اپنے حامیوں کے ایک جلسے سےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت آنے کے بعد بھی ملک کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
’پورے ملک میں ہماری لڑکیوں کا لوجہاد کے تحت استحصال کیا جا رہا ہے۔ پیار کے نام پر ہزاروں ہندو لڑکیوں کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ ہمیں انھیں متبنہ کرنا چاہیے۔‘
موتھلک نے یہ بھی کہا کہ ’یہ ان کی تنظیم شری رام سینا کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہندو لڑکیوں کو لو جہاد یعنی مسلم لڑکوں کی ہندو لڑکی سے شادی کی ’لعنت‘ کے بارے میں آگاہ کریں۔ ہم لو جہاد کے سبب سینکڑوں لڑکیاں کھو رہے ہیں۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ باگل کوٹے علاقے میں متعدد ہندو خواتین لو جہاد کا شکار بن رہی ہیں۔ انھوں نے ہندو نوجوانوں سے کہا کہ وہ ایسے لوگوں کو ملازمت اور قانونی تحفظ فراہم کریں گے جو مسلم لڑکیوں کو ورغلا کر ان کی زندگی تباہ کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ لو جہاد کے خلاف جوابی کارروائی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں صورتحال کا علم ہے۔ میں نوجوانوں کو یہاں دعوت دیتا ہوں ۔ اگر ہم ایک ہندو لڑکی کھوتے ہیں تو اس کی جگہ ہمیں دس مسلم لڑکیوں سے تعلق بنا کر انھیں اپنی جانب راغب کرنا چاہیے ۔۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو شری رام سینے آپ کی ذمے داری لے گی اور آپ کو ہر طرح کا تحفظ اور نوکری فراہم کرے گی۔‘
Getty Images
’لو جہاد‘ کی اصطلاح ہندو گروہوں نے تشکیل دی ہے جو مسلمان مردوں پر شادی کی ترغیب دے کر ہندو لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کروانے کا الزام لگاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مسلم لڑکے ایک سوچے سمبھے منصوبے کے تحت ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنانے کے لیے اپنے دام میں پھنساتے ہیں۔
جنوبی ریاست کرناٹک میں بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں ہے۔ آئندہ مارچ اور اپریل میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں اور یہاں اسے حزب اختلاف کی جماعت کانگریس سے سخت مقابلے کا امکان ہے۔
موتھلک نے آئندہ انتخابات میں الکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ریاست میں انتخابی سرگرمیاں زور پکڑ رہی ہیں۔
واضح رہے کہ صرف رام سینا کے رہنما موتھلک ہی نہیں بلکہ حکمران جماعت بی جے پی کے کئی وزرا اور لیڈر بھی اشتعال انگیز بیانات دے رہے ہیں۔
بی جے پی کے ریاستی صدر نلن کمار کتیل نے چند دنوں پہلے ایک ریلی میں اپنے حامیوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ میسور کے سابق حکمراں ٹیپو سلطان کے ماننے والوں کو ختم کر دیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ٹیپو سلطان کے وارثوں کو دوڑا کر جنگل کی طرف دھکیل دینا چاہیے۔‘
سخت گیر ہندو تنطیمیں مسلم رہنما ٹیپو سلطان کو ایک متعصب ظالم حکمراں کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
’لو جہاد‘: ’کوئی نہیں جانتا پسند کی شادی کرنے والے پنکی اور راشد کہاں گئے‘
’لوو جہاد‘ کا خدشہ: نوراتری کے تقریبات میں مسلمانوں کی شرکت پر پابندی کیوں؟
’آپ کی بیٹی مسلمان لڑکے سے شادی کرنے جا رہی ہے، اس بارے میں معلوم کریں‘
Getty Images
ریاست کرناٹک میں انتخابی مہم کے دوران نفرت انگیز اور اشتعال انگیز بیانات میں مزید شدت آنے کی توقع ہے۔
حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ پانچ برس اقتدار میں رہنے کے باوجود بی جے پی پوری طرح ناکام رہی اور اب وہ ریاست کے عوام کو مذہب کے نام پر بانٹ کر ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
نومبر سنہ 2020میں ریاست اتر پردیش انڈیا کی وہ پہلی ریاست بن گئی تھی جس نے ’جبر‘ یا ’دھوکہ دہی‘ کے ذریعے مذہب کی تبدیلی کے خلاف قانون منظور کیا تھا۔
’لو جہاد‘ قانون کے تحت جرم ثابت ہونے پر ملزم کو دس سال قید تک کی سزا ہو سکتی ہے جبکہ یہ جرائم ناقابلِ ضمانت ہیں۔
اس کے بعد کم از کم مزید چار انڈین ریاستوں، مدھیا پردیش، ہریانہ، کرناٹکا اور آسام، میں بھی اسی نوعیت کے قوانین بنائے گئے ہیں۔
ان پانچوں ریاستوں میں انڈیا کی برسراقتدار جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی، کی حکومت ہے۔ اس جماعت پر مبینہ طور پر مسلمان مخالف جذبات کو عام کرتے رہنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون کے غلط استعمال کرنے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ اگرچہ ’لو جہاد‘ کی اصطلاح انڈین قانون میں موجود نہیں تاہم سخت گیر قدامت پسند ہندو گروہ اس قانون کے لیے یہی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔