’غیرمعمولی‘ بننے کی خواہشمند خاتون جنھیں اُن کے عاشق کے کیے جرم میں پھانسی دی گئی

بی بی سی اردو  |  Feb 20, 2023

وہ منگل کی یخ بستہ صبح تھی جب جلاد (پھانسی دینے والا) اور اس کے معاونین لندن کی ہالووے جیل کے بدنام زمانہ سیل پہنچے۔

جلاد کی آمد سے قبل ہی سیل میں موجود 29 سالہ ایڈتھ تھامسن نامی خاتون قیدی کو سکون دینے والی طاقتور دوا کے انجیکشن لگائے جا چکے تھے جس کے باعث وہ لگ بھگ بےہوش پڑی ہوئی تھیں۔ جیسے ہی پھانسی دینے والی ٹیم ان کے سیل میں داخل ہوئی تو انھیں نے نیم وا آنکھوں کے ساتھ ایک ٹھنڈی آہ بھری۔

پھانسی دینے والے جلاد کے ساتھ آئی معاونین کی ٹیم میں سے ایک مرد نے انھیں سہارا دے کر اٹھاتے ہوئے ان کے کان میں سرگوشی کی: ’چلو اٹھو، جلد ہی یہ سب ختم ہو جائے گا۔‘

ایڈتھ کے ہاتھ اور پاؤں باندھے گئے اور انھیں اس چبوترے کی طرف لے جایا جا رہا تھا جہاں پھانسی کا تختہ اور پھندا اُن کا منتظر تھا۔ چند منٹوں بعد ان کا بے جان جسم پھانسی کے پھندے پر جھول رہا تھا۔

Getty Imagesجس رات ایڈتھ کو پھانسی دی گئی تو صبح جیل کے باہر لوگوں کا ہجوم تھا

جب لندن کی ہالووے جیل میں 29 سالہ ایڈتھ کو پھانسی دینے کی کارروائی کی جا رہی تھی تو اُسی دوران وہاں سے تقریباً نصف میل دور پینٹون ویلے جیل میں اُن کے 20 سالہ عاشق فریڈی بائی واٹرز کا بھی یہی انجام ہو رہا تھا (یعنی انھیں بھی اسی روز پھانسی دے دی گئی)۔

تین ماہ قبل فریڈی بائی واٹرز نے ایڈتھ کے شوہر کو چاقو کے کئی وار کر کے اُس وقت ہلاک کر دیا تھا جب ایڈتھ اور ان کے شوہر سڑک پر جا رہے تھے۔ قاتل فریڈی نے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا کہ اُن کی محبوبہ (ایڈتھ) کو ان کے اس منصوبے کی کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی، یعنی انھوں نے ایڈتھ کے شوہر کو قتل کرنے کا منصوبہ خود بنایا تھا جس میں ان کا کوئی شریک نہیں تھا۔

اس کیس کو قریب سے دیکھنے والے ایک وکیل کے مطابق مطابق ایڈتھ ک29 سالہ ایڈتھ کا جرم پُرکشش، خود مختار، محنت کش طبقے سے تعلق رکھنا اور بے وفا ہونا تھا۔ اور یہ کہ وہ اس وقت کے اخلاقی ضابطوں کی پابندی نہ کرنے والی خواتین کے بارے میں سماجی عدم برداشت کا شکار ہوئیں۔

مشہور ناول نگار اور سکرین رائٹر ایڈگر والیس نے اس کیس کے متعلق کہا: ’اگر اس ملک (برطانیہ) کی تاریخ میں اگر کسی عورت کو فقط عوام کے سراسر تعصب کی وجہ سے پھانسی دی گئی، اور اس پھانسی کو جواز فراہم کرنے کے لیے معمولی ثبوت بھی فراہم نہیں کیے گئے، تو وہ خاتون ایڈتھ تھامسن تھیں۔

’وہ غیر معمولی بننا چاہتی تھیں‘

ایڈتھ اپنی زندگی میں ایک ایسی نوجوان خاتون تھیں جو ایک ایسی زندگی چاہتی تھیں جو محنت کش طبقے کی خواتین سے مختلف ہو۔

ان کی پیدائش سنہ 1893 میں لندن کے ایک مضافاتی علاقے میں ہوئی اور وہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ سب سے بڑی ہونے کے ناطے، ایڈتھ اپنی چھوٹی بہن اور تین بھائیوں کی دیکھ بھال میں اپنی والدہ کی مدد کرتی تھیں۔

سکول کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد، پُرجوش اور ذہین ایڈتھ کام کے لیے شہر پہنچ گئیں اور باربیکن میں واقع خواتین کے لیے ٹوپیاں بنانے والی کپمنی ’کارلٹن اینڈ پالمر‘ میں شامل ہو گئیں اور تیزی سے ترقی کرتے ہوئے فرم کے اعلیٰ عہدے تک جا پہنچیں۔

ان کی پھانسی کے کیس کے بارے میں دو کتابیں لکھنے والی مصنفہ لورا تھامسن کا کہنا ہے کہ ’وہ ایک عام عورت تھیں جو غیر معمولی بننا چاہتی تھیں۔‘

جنوری 1916 میں ایڈتھ نے پرسی تھامسن نامی شخص سے شادی کر لی جو پیشے کے لحاظ سے شپنگ کلرک تھے۔ اس شادی شادہ جوڑے نے جلد ہی اپنا ایک گھر خریدا، جو اس جگہ سے زیادہ دور نہیں تھا جہاں وہ دونوں پلے بڑھےتھے۔

اپنے شوہرسے زیادہ ماہانہ تنخواہ کمانے والی ایڈتھ نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر جو نیا گھر خریدا تھا اس میں انھوں نے نصف سے زیادہ حصہ ڈالا۔ تاہم اس گھر کی رجسٹری ان کے شوہر پرسی تھامسن کے نام پر ہی ہوئی تھی۔

ایک نئی شادی شدہ نوجوان خاتون کے طور پر اُن سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اُمور خانہ داری کی ذمہ داری نبھائیں گی اور بچے پالیں گی، لیکن ایڈتھ کے خیالات کچھ اور تھے۔

وہ ایک شاندار رقاصہ تھیں اور وہ لندن کے بہترین ہوٹلوں اور ڈانس ہالز میں راتوں کا مزہ لیتی تھیں۔ یہ ایسی جگہیں تھیں جو ان کی سماجی حیثیت کے لوگوں کے لیے نہیں تھیں یعنی یہاں امیر کبیر افراد ہی جاتے تھے ناکہ غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد۔ ایڈتھ اکثر اپنی شامیں دوستوں کے ساتھ تھیئٹروں، سینما گھروں اور ریستورانوں میں گزارتی تھیں۔

ایڈتھ، اُس وقت کے رسم و رواج کی پابند نہیں ہونا چاہتی تھیں، وہ کوئی عام بیوی بھی نہیں تھیں۔ مزید یہ کہ ان کا ایک عاشق بھی تھا، جو کہ ایک خوبصورت اور دلکش آدمی تھا اور ان سے عمر میں آٹھ سال چھوٹا تھا۔

’میں ایک ایسی عورت سے ملی جس نے تین شوہر کھو دیے‘

فریڈرک بائی واٹرز، ایڈتھ کے خاندان کو جانتے تھے۔ انھوں نے اسی سکول میں تعلیم حاصل کی تھی جس میں ایڈتھ کے بھائیوں میں سے ایک داخل ہوئے تھے۔ فریڈرک نے 13 سال کی عمر میں مرچنٹ نیوی میں شمولیت کے لیے لندن چھوڑ دیا تھا۔

جون 1921 میں اپنی چھٹی کے دوران انھیں پرسی، ایڈتھ اور اُن کی بہن ایوس گریڈن کے ساتھ ایک ہفتہ گزارنے کا موقع ملا۔

اس دوران نوعمر فریڈرک اور ایڈتھ کے درمیان زبردست رومانس شروع ہو گیا جو اس وقت مزید پروان چڑھا جب فریڈرک کو ایڈتھ کے خاندان کے ساتھ چند ہفتے قیامکی دعوت دی گئی۔

فریڈرک چونکہ اکثر شہر سے دور رہتے تھے اس لیے یہ دونوں محبت کرنے والے ایک دوسرے کو کثرت سے خطوط لکھتے تھے اور اُن میں ایڈتھ کو ہدایت ہوتی کہ خطوط پڑھنے کے بعد ضائع کر دیے جائیں۔

مِس تھامسن کا کہنا ہے کہ ’وہ قابل ذکر دستاویزات ہیں۔‘

اُن کی نئی کتاب میں ان خطوط کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے جن میں ’کُھل کر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے یہ ان کی ذات کا وہ پہلو ہے جسے انھوں نے صفحات پر بکھیر دیا ہے۔‘

ایڈتھ کی تحریریں ان کے جذبات کے اظہار سے لبریز ہیں جن میں حقیقت اور فسانے مدغم ہیں۔ ایک خط میں وہ روزمرہ کی زندگی کے حالات کو بیان کرتے ہوئے سیکس، اسقاط حمل اور خودکشی کے بارے میں اپنے ذاتی خیالات کا اظہار کرنے لگتی ہیں۔

بعض جگہ ایسا مواد بھی ہے جو بظاہر شرارت آمیز لگتا ہے۔ فکشن کی شوقین ایڈتھ کبھی کبھی خود کو کسی ناول کے ایک کردار کے طور پر تصور کرتی ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ پرسی سے چھٹکارا پانے کی خواہش کا اشارہ دیتی ہیں اور اس کے کھانے میں شیشے کے چھوٹے ٹکڑے ملانے کی بات کرتی ہیں۔

ایک خط میں انھوں نے لکھا: کل میں ایک ایسی عورت سے ملی جس نے اپنے تین شوہروں کو کھو دیا تھا، وہ جنگ میں نہیں مرے تھے، دو ڈوب گئے تھے اور ایک نے خودکشی کر لی تھی، اور کچھ ایسے لوگوں کو میں جانتی ہوں جو ایک بھی شوہر نہیں کھو سکتے۔ یہ سب کچھ کتنا غیر منصفانہ ہے۔۔۔

یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر رینے ویس کئی دہائیوں سے اس کیس کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ خطوط ’حد سے زیادہ رومانوی تخیل کے کام‘ سے زیادہ کچھ نہیں دکھاتے ہیں۔

مگر ایڈتھ کے لیے ان کے الفاظ جان لیوا ثابت ہوئے۔

’انھوں نے ایسا کیوں کیا؟‘BBCپرسی پرحملے سے پہلے فریڈی بیلگریو روڈ پر گھات لگا کر بیٹھا ہوا تھا

تین اکتوبر سنہ 1922 کو ایڈتھ اور پرسی نے پیکاڈیلی سرکس کے قریب کریٹرین تھیئٹر میں ’دی ڈپرز‘ کامیڈی دیکھتے ہوئے شام گزاری۔ شو کے بعد وہ الفرڈ جانے والی ٹرین پکڑنے سے پہلے لیورپول سٹریٹ پر ٹیوب پر سوار ہوئے۔

جب وہ بیلگریو روڈ کے ساتھ اپنے گھر کی طرف چلے جا رہے تھے کہ ایک شخص جوڑے کے درمیان آ گیا۔ جب پہلے پوچھ گچھ کی گئی تو ایڈتھ نے پولیس کو بتایا کہ انھیں وہاں سے دھکا دے کر ہٹا دیا گيا اور پھر انھوں نے اپنے شوہر کو زمین پر گرا ہوا پایا۔

ڈاکٹر کو بلایا گیا جس نے پرسی کو مردہ قرار دیا۔

ابتدائی طور پر یہ خیال کیا گیا کہ 32 سالہ نوجوان کو اچانک برین ہیمرج ہوا تھا لیکن جب پولیس نے ان کے جسم کا معائنہ کیا تو ان کی گردن پر چاقو کے زخم پائے گئے۔ دن کی روشنی میں دیکھا گيا تو ان کا خون سڑک پر 44 فٹ (13 میٹر) دور تک بہہ چکا تھا۔

اس واقعے کے چند دنوں کے بعد ہی قتل کی تفتیش شروع ہو گئی۔

Getty Imagesفریڈی کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ ایڈتھ کے والدین سے مل کر واپس آ رہا تھا

پرسی کے بھائی نے پولیس سے بتایا کہ انھیں فریڈی سے بات کرنی چاہیے، جو تقریباً دو ہفتے پہلے ہی لندن واپس لوٹا تھا۔ 20 سالہ پرسی اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا اور پولیس نے اس کے کمرے کی تلاشی لی تو وہاں سے انھیں ایڈتھ کے وہ محبت نامے ملے جو انھوں نے شروع شروع میں فریڈی کو لکھے تھے۔

پولیس کے سراغ رسانوں نے الفرڈ کی تھانے میں ایک ملاقات کا اہتمام کیا۔ ان کا خیال تھا کہ جب فریڈی اور ایڈتھ اچانک ایک دوسرے سے نظریاں ملائیں گے تو ایڈتھ خود ہی فریڈی کو قتل کا ذمہ قرار دے دے گی۔ اس اچانک ملاقات کے بعد ایڈتھ نے روتے ہوئے کہا کہ ’اس (فریڈی) نے ایسا کیوں کیا؟ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ ایسا کرے، او خدایا، او خدایا، اب میں کیا کروں؟ ضروری ہے کہ میں اب سچ بتا دوں۔‘

بعد میں پولیس نے ’موریا‘  نامی بحری جہاز پر فریڈی کے کیبن کی تلاشی لی تو وہاں سے انھیں ایک مقفل صندوق سے ایڈتھ کے کچھ اور خطوط بھی ملے، جن میں وہ خط بھی شامل تھے جن میں ایڈتھ کی یہ خواہش بھی نظر آتی ہے کہ پرسی کو اس منظر سے باہر ہونا چاہیے۔

فریڈی نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ اس نے پرسی پر چاقو کے وار کیے تھے، لیکن فریڈی کا دعویٰ تھا کے اس نے ایسا اپنے دفاع میں کیا کیونکہ پرسی نے اسے مارنا شروع کر دیا تھا۔ جب پولیس نے فریڈی کو بتایا کہ ایڈتھ پر بھی فرد جرم عائد کی جائے گی تو فریڈی کا جواب تھا ’وہ کیوں؟ ایڈتھ تو میری نقل و حرکت سے  بے خبر تھیں۔‘

’ایک پہلی رات جیسی فضا‘Getty Imagesایڈتھ اور پرسی کی شادی جنوری 1916 میں ہوئی تھی

اس مقدمے کی باقاعدہ سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی ایڈتھ کے خطوط کی تفصیلات اخبارات میں شائع ہونے لگیں۔ یوں ایڈتھ اور فریڈی ایک طوفان میں گھر چکے تھے۔

مسز تھامسن کے بقول فریڈی اور ایڈتھ ’دونوں میں گلیمر تھا، جیسے وہ کوئی فلمی ستارے ہوں۔ فریڈی روپرٹ بروک دکھائی دیتے تھے، یا ان کے قریب قریب۔ اور لگتا ہے کہ ایڈتھ بھی جنسی کشش کا شاہکار تھیں۔‘

پھر6 دسمبر 1922 کو جب ایڈتھ اور فریڈی کو لندن کی اولڈ بیلی کی عدالت میں لایا گیا تو کمرۂ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ لوگوں کا ایک بڑا ہجوم وقت سے پہلے ہی عدالت کے باہر جمع ہونا شروع ہو چکا تھا اور ہر کوئی پبلک گیلری میں اچھی نشست پر بیٹھ کر اس مقدمہ قتل کی سماعت دیکھنا اور سننا چاہتا تھا۔

90 دن تک جاری رہنے والے اس مقدمے کے آخری دنوں کے دوران حال یہ ہو چکا تھا کہ بیروز گار افراد ہر رات عدالت کے باہر قطار میں کھڑے ہو جاتے اور اگلی صبح قطار میں اپنا نمبر کسی کو فروخت کر دیتے۔ ان بیروزگار لوگوں کو اس کے عوض برطانیہ  کی ہفتہ وار اوسط آمدن سے زیادہ پیسے مل جاتے۔

Getty Imagesجب پرسی کی موت کی تفتیش ہو رہی تھی تو فریڈی وہاںبھی موجود تھا اور اسے اس وقت تک باقاعدہ مشتبہ افراد میں شامل نہیں کیا گیا تھا

بیورلی نکولس ان دنوں ایک نوجوان رپورٹر تھے اور وہ اس مقدمے کی شروع سے آخر تک رپورٹنگ کرتے رہے۔ ان کے بقول یہ مقدمہ دیکھ کر ایسے لگتا تھا جیسے’سلطنت روم کا زمانہ ہو جب مسیحت کے ماننے والوں کو بھوکے شیروں کے سامنے پھینک دیا جاتا تھا۔‘

سنہ 1973 میں بی بی سی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اولڈ بیلی میں ہونے والی سماعت کا ماحول (کسی سٹیج ڈرامے کی) پہلی رات والا تھا۔ بہت سے لوگ یہ سمجھ رہے تھے جیسے وہ سٹال یا ڈریس سرکل میں ہوں، سنسنی کی تلاش میں بڑی سوسائٹی کی خواتین، اور یہ تمام لوگ یہ سمجھ رہے تھے جیسے وہ ٹکٹ خرید کر یہ (کھیل یا شو) دیکھنے آئے ہوئے ہیں۔‘

لندن کے مشہور عجائب گھر میڈم تساؤ کے فنکار بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھے جو اپنے ’چیمبر آف ہارر‘ کے لیے دو نئے منفی کرداروں کے مجسمے بنانے کے لیے ایڈتھ اور فریڈی کی تصویر کشی کر رہے تھے۔‘

’ایک مغرور اور  خودغرض عورت‘Getty Imagesاس مشہور مقدمے کی سماعت دیکھنے کے لیے لوگ صبح سویرے عدالت کے باہر قطار میں کھڑے ہو جاتے تھے

سماعت کے دوران ایڈتھ کے محبت ناموں سے اقتسابات پڑھ کر سنائے گئے جو استغاثہ کے لیے مقدمے قتل کے نہایت اہم ثبوت تھے۔

جب یہ خط کھلی عدالت میں پڑھے جا رہے تھے تو لوگوں کا ردعمل ایسا تھا جیسے وہ یہ سب سننا چاہتے ہوں، چنانچہ جیوری کے ارکان کو ہدایت کی گئی کہ وہ یہ خط خاموشی سے اپنے طور پر پڑھ لیں۔

مِس تھامسن بتاتی ہیں کہ ’یہ خوفناک بات مجھے مار دیتی ہے کہ ان خطوط کو یوں عدالت میں سب کے سامنے پڑھا گیا، یعنی نجی، انتہائی ذاتی الفاظ کو یوں پڑھا گیا۔ پبلک گیلری میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا رویہ ایسا تھا جیسے انھیں پاگل پن کا دورہ پڑا ہو اور کسی کی انتہائی نجی چیز کو سُن کر خوش ہو رہے ہوں۔ میں سمجھتی ہوں یہ ایسے ہی تھا جیسے کسی شخص کو سب کے سامنے اذیت دی جا رہی ہو۔‘

پروفیسر ویس کے خیال میں چونکہ یہ مقدمہ اس وقت چلا جب لوگ جنگ عظیم اوّل کی تباہ کاریوں سے نکل ہی رہے تھے، اس لیے لوگوں کو شاید اپنا غصہ ایڈتھ پر نکالنے کا موقع مل گیا۔

’اس وقت بیانیہ یہ بنایا گیا  کہ برطانیہ جنگ میں بیوہ ہو جانے والی عورتوں سے بھرا پڑا ہے اور ایک  معمولی خاندانی پس منظر رکھنے والی ایک مغرور اور خود غرض جوان عورت جس کے پاس اچھی صورت، ایک پیارا گھر، دولت، اچھا شوہر، ضیافتیں، ڈانس پارٹیاں، تھیٹر، سب کچھ موجود تھا، لیکن دیکھو اس عورت نے کیا کیا۔ اس کے لیے ایک اچھا مرد کافی نہیں تھا۔‘

پررفیسر ویس کہتے ہیں کہ ’لوگ فریڈی کی تعریفیں کر رہے تھے اور وہ ایڈتھ کو شدید ناپسند کرنے لگے، ایک ایسی مکار عورت جس نے ایک نوجوان کو اپنی محبت میں گرفتار کر کے واقعات کے ایک ایسے سلسلے کو جنم دیا جس کے نتیجے میں ایک شخص کی موت ہو گئی اور اب ایک ’لڑکے‘ کو یقینی طور پر  پھانسی لگا دیا جائے گا۔

’ یہ خاتون مجرم نہیں ہے‘

لوگوں میں ایڈتھ کے خلاف جو ناپسندیدگی پائی جاتی تھی، وہ مقدمے کے جج مسٹر جسٹس شئرمین میں بھی دکھائی دے رہی تھی۔ سماعت کے دوران جب وکیل صفائی دلائل دے رہا تھا تو انھوں نے اسے کئی مرتبہ ٹوکا۔

اور پھر سماعت کو سمیٹتے ہوئے بھی انھوں نے جیوری کے ارکان کو بتایا کہ وہ خود ایڈتھ کے جنسی تعلقات کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں۔ جیوری میں دو خواتین بھی شامل تھیں لیکن وہ جیوری کو مخاطب کرتے ہوئے ’حضرات‘ کا لفظ استعمال کرتے رہے۔

آخری کلمات میں جیوری سے ان کا کہنا تھا کہ ’ مجھے یقین ہے کہ کسی بھی عقلمند انسان کی طرح آپ لوگوں کو بھی (ایڈتھ کی حرکات) سے کراہت محسوس ہو رہی ہو گی۔‘

جہاں تک ایڈتھ کے خلاف شواہد کا تعلق ہے تو آپ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں یہ شواہد کمزور اور پھس پھسے تھے۔ مثلاً جب زہر اور شیشے کے ٹکڑوں کے لیے پرسی کی لاش کا معائنہ کیا گیا تو اس میں ایسی کوئی چیز برآمد نہیں ہوئی جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا کہ پرسی کے موت اس سے ہوئی تھی۔

اسی طرح پرسی کی موت والی رات کے عینی شاہدین کے بیانات سے بھی ایڈتھ کے اس مؤقف کی تائید ہوتی تھی کہ انھیں (فریڈی کے عزائم) کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔

ایڈتھ کے وکیل کی منت سماجت کے باوجود ایڈتھ عدالت کے کٹہرے میں کھڑی ہوئیں اور مِس تھامسن کے بقول ’میرے نزدیک یہ چیز کسی شخص کے بے قصور ہونے کو ظاہر کرتی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ہر صورت اپنا موقف سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔‘  

لیکن اپنے بیان میں ایڈتھ نے بہت بڑی غلطی کر دی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وکیل استغاثہ نے ان کے خطوط کو خوب توڑ موڑ کر پیش کیا، ان میں سے ایک جھوٹا بیانیہ بنایا اور ان خطوط کی بنیاد پر اس معاملے میں ایک ایسا تسلسل دکھانے کی کوشش کی جس سے سننے والے بھی بھٹک گئے۔

11 دسمبر کو جیوری نے سماعت کے اختتام پر دو گھنٹے کی رخصت لی جس کے بعد جب دوبارہ عدالت لگی تو ایڈتھ کو تقریباً اٹھا کر عدالت میں لایا گیا۔ جیوری نے فریڈی اور ایڈتھ دونوں کو قتل کا مرتکب پایا۔

جب فیصلہ سنایا گیا تو عدالت میں کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی اور اس شور شرابے میں فریڈی نے چیخ کر کہا کہ ’یہ جیوری غلط ہے۔‘ جب مسٹر جسٹس شئرمین نے دونوں کو سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تو ان کی سفید وِگ پر ایک سیاہ ٹوپی رکھی گئی تھی۔

اور جب ایڈتھ کو واپس جیل لے جایا جا رہا تھا تو ان کے منہ سے وہ چیخ نکل گئی جسے انھوں نے کافی دیر سے اپنے اندر دبا رکھا تھا۔

’ایڈتھ کے پاس بچنے کا کبھی کوئی امکان نہیں تھا‘Getty Images اپنے والدین سے ایڈتھکی آخری ملاقاتپھانسی سے ایک دن پہلے کرائی گئی تھی

فریڈی کو جلاد کے پھندے سے بچانے کے لیے عوامی سطح پر اپیل کی گئی جس پر دس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے دستخط کیے، مگر ایڈتھ کے معاملے میں کسی نے زیادہ ہمدردی نہیں دکھائی۔

مِس تھامسن کہتی ہیں کہ ’عورتوں نے انھیں (ایڈتھ) کو اس لیے ناپسند کیا کیونکہ وہ ایڈتھ سے خوف محسوس کر رہی تھیں۔ ایڈتھ ان عورتوں میں سے تھیں جن کے بارے میں خواتین یہ سمجھتی  ہیں کہ مرد ایسی عورتوں کو پسند کرتے ہیں، ان خواتین کی نظر میں ایڈتھ ایک ایسی مصیبت تھی جس پر رحم نہیں کیا جا سکتا تھا۔‘

فیصلے کے بعد اخبارات میں بہت سی آرا شائع ہوئیں، جن میں اکثریت ایسے مضامین کی تھی جن میں ایڈتھ کو بہت بُرا بھلا کہا گیا تھا۔ روزنامہ ٹائم نے ان دنوں لکھا کہ ’اس مقدمے میں ایسی کوئی صورتحال نہیں پیدا ہوئی جس سے (ایڈتھ کے لیے) ذرا برابر ہمدردی پیدا ہوئی ہو۔ لوگوں کی نظر میں یہ پورا معاملہ بڑا سادہ اور گندا تھا۔‘

حتیٰ کہ حقوق انسانی کی ایک دعوے دار، ربیکا ویسٹ نے لکھا کہ ایڈتھ ’ایک غریب بچی تھی، بالکل کوڑا کرکٹ۔‘

ایڈتھ کو پھانسی دیے جانے کے بعد خواتین نے اس زمانے کے وزیر داخلہ، ولیم برجمین کو خط بھی لکھے جن میں ان کا شکریہ ادا کیا گیا کہ انھوں نے ایڈتھ کی سزائے موت برقرار رکھ کر خواتین کی عزت کا تحفظ کیا۔

ایڈتھ نے پھانسی سے پہلے جیل سے بھی خط لکھے جن میں ایک ایسی خاتون کا کرب نظر آتا ہے جسے صفحۂ ہستی سے خاتمے کا سامنا ہو۔

اپنے والدین کے نام ایک مختصر خط میں انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا تھا ’لگتا ہے آج سب کچھ ختم ہونے جا رہا ہے۔ میں کچھ سوچنے سے بھی لاچار ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ میرے سامنے ایک سیاہ، موٹی دیوار ہے جس میں سے نہ تو میری نظریں پار ہو سکتی ہیں اور نہ ہی میرے خیالات۔ یہ بات میرے خیالات کی طاقت کے احاطے سے بھی باہر ہے کہ یہ سزا اس جرم کے لیے بھی ضروری ہو چکی ہے جو میں نے سرزد ہی نہیں کیا، جس کے بارے میں مجھے پتہ ہی نہیں تھا، نہ تو اُس وقت اور نہ ہی اس سے پہلے۔‘

ایڈتھ سے پہلے کے عشروں میں برطانیہ میں جس خاتون کو بھی سزائے موت سنائی گئی تھی، اسے سزائے موت سے معافی دے دی گئی تھی، لیکن اس کے باوجود ایڈتھ کی معافی کے لیے کی گئی تمام درخواستوں کو مسترد کر دیا گیا۔

مِس تھامسن اس حوالے سے کہتی ہیں کہ ’جب آپ دیکھتے ہیں کہ ایڈتھ کی پھانسی کو یقینی بنانے کے لیے وزارت داخلہ نے کیا کیا جتن کیے تو آپ کو خوف آتا ہے۔ مِس تھامسن کے خیال میں شادی کے رشتہ سے باہر ایڈتھ کے جنسی تعلق کو معاشرے کی ’اخلاقیات پر حملے کے طور پر دیکھا گیا، ایک ایسا رویہ جس سے ’شادی کا ادارہ اور اس سے منسلک تمام اچھی چیزیں‘ تباہ ہونے کا خطرہ تھا۔

’کم از کم اب تو وہ اپنے والدین کے ساتھ ہے‘Getty Imagesبرسوں بعد ایڈتھ کے تابوت کو قبر سے نکال کر لندن کے اس قبرستان میں دوبارہ دفنا دیا گیا جہاں ایڈتھ کی موت کے بعد ان کےماں باپ دفن ہوئے تھے

ستمبر 1923 میں جب ایڈتھ کے خاندانی گھر کی باقیات کی نیلامی کی گئی تو لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے سامنے کی سڑک اور گھر کا باغ تک بھر گیا کیونکہ ہر کوئی اپنے لیے ایڈتھ کی زندگی کا کوئی ٹکڑا لینا چاہتا تھا۔

نیلامی کرنے والے عملگے میں شامل ایک شخص نے اس دن کا حال بیان کرتے ہوئے بتایا تھا  کہ ’نیلامی دیکھنے کے لیے آنے والے لوگوں نے اپنے  دوستوں کو یہ دکھانے کے لیے وہ بھی کچھ لے کر آئے ہیں، گھر کے باغ کی باڑ سے اتنے پتّے اتارے کہ تمام باڑ ننگی ہو گئی۔‘

بعد کے برسوں میں مومی مجسموں کے عجائب گھر، مادام تساؤ میں ایڈتھ اور فریڈی کے مجسمے سیاحوں کی دلچسپی کا خاص مرکز بنے رہے اور لگتا تھا کہ لوگوں کا تجسس ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

آخر کار سنہ 1980 کے عشرے میں ان دونوں مجسموں کو چیمبر آف ہارر سے ہٹا دیا گیا۔ آج کل یہ مجسمے عجائب گھر کے محافظ خانے میں پڑے ہوئے ہیں جہاں ان کی موم خراب ہو چکی ہے اور کئی جگہ سے رنگ کی تہہ اکھڑ چکی ہے۔  

پروفیسر ویس کئی برس تک یہ جنگ لڑتے رہے ہیں کہ ایڈتھ کو قانون کی نظر میں معاف کر دیا جائے۔ جب سنہ 2018 میں ایڈتھ کے تابوت کو سٹی آف لندن کے قبرستان میں دوبارہ اپنے والدین کی قبروں کے ساتھ دفن کیا گیا تو پروفیسر ویس نے کہا تھا کہ ’مجھے امید تھی کہ ایک دن میں ایڈتھ کی والدہ کی آخری خواہش پوری کر دوں گا۔ اب کم از کم اتنا تو ہوا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اپنے گھر لوٹ آئیں ہیں۔‘

جہاں تک مِس تھامسن کا تعلق ہے تو ان کی نظر میں ایڈتھ کے ساتھ جو ہوا وہ بات آج برطانیہ میں سزائے موت پر پابندی کے 50 برس بعد سچ ہے۔

’لوگوں کو یہ بات یاد دلانا اہم ہے کہ ابھی تک کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ تعصب ہمیشہ موجود رہتا ہے، تعصب صرف اپنی شکل تبدیل کرتا رہتا ہے۔‘

اس کہانی سے ہمیں ایک تلخ سبق ملتا ہے۔ آپ جن لوگوں سے حسد کرتے ہیں، ان کے بارے میں اپنے فوری جذبات پر نظر رکھیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More