فرنٹو ٹیمپورل ڈیمنشیا: ہالی وڈ ایکشن ہیرو بروس ویلس لاعلاج بیماری ایف ٹی ڈی میں مبتلا

بی بی سی اردو  |  Feb 18, 2023

Getty Images

ہالی ووڈ اداکار بروس ویلس کے اہلخانہ نے سوشل میڈیا کے ذریعے اعلان کیا کہ وہفرنٹو ٹیمپورل ڈیمنشیا کا شکار ہیں۔

67 سالہ اداکار کے ایک رشتہ دار نے 16 فروری کو انسٹا گرام پر ایک بیان میں کہا کہ ’بالآخر واضح تشخیص ہونا اطمینان کی بات ہے۔‘

انھوں نے لوگوں کی ’ناقابل یقین محبت‘ کے اظہار پر بھی شکریہ ادا کیا۔

اداکار بروس ویلس کے رشتہ دار کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ابھی تک اس بیماری کا کوئی علاج نہیں اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں ہمیں امید ہے کہ آنے والے برسوں میں تبدیلی آسکتی ہے۔‘

فرنٹو ٹیمپورل ڈیمنشیا (ایف ٹی ڈی) کیا ہے؟

فرنٹو ٹیمپورل ڈیمنشیا (ایف ٹی ڈی) ایک لاعلاج بیماری ہے جو دماغ کے فرنٹل اور ٹیمپورل لوبز میں اعصابی خلیات کی مسلسل کمی سے ہوتی ہے۔ اس سے کسی کی شخصیت، رویہ اور زبان بدل جاتی ہے۔

یہ عام طور پر سمجھے جانے والے ’ڈیمنشیا‘ سے الگ ہے۔ ایک جیسی علامات والی ذہنی بیماریوں کے لیے استعمال ڈیمنشیا کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں اور اس فہرست میں الزائمرز بھی شامل ہے۔

ایف ٹی ڈی ایک غیر معمولی بیماری ہے جو 45 سے 65 سال کی عمر کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ اس کی کچھ اقسام عمر رسیدہ افراد میں بھی پائی جاتی ہیں۔

الزائمرز ایسوسی ایشن کے مطابق ایف ٹی ڈی کی مختلف اقسام ہیں تاہم اندازوں کے مطابق امریکہ میں اس بیماری سے 50 سے 60 ہزار لوگ متاثرہ ہیں۔

امریکہ میں قائم میو کلینک کے مطابق یہ 60 سال سے کم عمر کے لوگوں کو متاثر کرنے والی ڈیمنشیا کی سب سے عام قسم ہے، حالانکہ یہ تمام ڈیمنشیا کیسز کا صرف 10فیصد سے 20 فیصد ہے۔

ڈیمنشیا کی دیگر اقسام کی طرح ایف ٹی ڈی آہستہ آہستہ پروان چڑھتا ہے اور مسلسل بدتر ہوتا جاتا ہے۔

Getty Imagesعلامات

اس مرض کی علاماتکا اظہار دماغ کے مثاثرہ حصوں پر منحصر ہے لیکن ان علامات میں شخصیت یا طرز عمل میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ زبان، ارتکاز اور یادداشت کی مشکلات شامل ہو سکتی ہیں۔

دیگر علامات میں جسمانی مسائل ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مثانے یا آنتوں کے مسائل، پٹھوں کی کمزوری یا نگلنے میں دشواری۔

اس کی علامات میں رویے میں تبدیلی بھی شامل ہے۔ اس کی وجہ سے نامناسب سماجی رویہ، کمزور فیصلہ سازی اور آسانی سے توجہ ہٹنے کی شکایات سامنے آتی ہیں۔

میو کلینک کے مطابق ایف ٹی ڈی سے لوگوں کی شخصیت اور رویے متاثر ہوتے ہیں اور بعض اوقات اسے ذہنی مرض سمجھ کر غلط تشخیص کی جاتی ہے۔

اس بیماری کا کوئی علاج نہیں اور نہ ہی اس کے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے تاہم اس کی علامات کے لیے کچھ علاج موجود ہیں۔

بیماری بڑھنے سے مریضوں کو ہر وقت نگرانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ تشخیص کے بعد اوسطاً لوگ آٹھ سے 10 سال تک زندہ رہتے ہیں تاہم کچھ لوگ طویل عرصے تک بیماری کے ساتھ زندگی گزار پاتے ہیں۔

اس کی تشخیص کیسے کی جاتی ہے؟

اس کی تشخیص کے لیے کوئی خصوصی ٹیسٹ موجود نہیں تاہم تشخیص کے لیے طویل مدتی ٹیسٹ کیے جاتے ہیں تاکہ دوسری بیماریوں کا امکان خارج کیا جاسکے۔

اگر آپ رویے اور زبان میں تبدیلیاں دیکھیں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ ان لوگوں میں اس بیماری کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے جن کے خاندان میں پہلے سے لوگ اس سے متاثر ہوئے ہوں۔

Getty Imagesبروس ویلیس نے چار عشروں پر میحط اپنے فلمی کیرئر میں 100 سے زیادہ فلموں میں کام کیا اور متعدد ایوارڈز جیتےریٹائرمنٹ

2022 کے اوائل میں بروس ویلس نے افاسیا کی تشخیص کے بعد اداکاری سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔یہ ایک ایسیبیماری ہے جس میں مبتلا شخص کو زبان کو صحیح طریقے سے سمجھنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ جو لوگ اس میں مبتلا ہیں انھیں بولنے، لکھنے یا پڑھنے میں دشواری ہوسکتی ہے۔

16 فروری کو جاری ہونے والے بیان میں ویلس کے رشتہ داروں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اداکار کی حالت پر میڈیا کی توجہ سے اس مرض کے بارے میں آگاہی پیدا ہوگی۔

’بروس ہمیشہ دنیا میں اپنی آواز کو دوسروں کی مدد کے لیے استعمال کرنے اور عوامی اور نجی طور پر اہم معاملات کے بارے میں شعور اجاگر کرنے پر یقین رکھتے تھے۔

ہم اپنے دل میں جانتے ہیں کہ اگر وہ آج ایسا کر سکتے ہیں تو وہ عالمی توجہ حاصل کرنا چاہیں گے اور ان لوگوں کے ساتھ رابطہ قائم کرنا چاہیں گے جو اس بیماری سے نمٹ رہے ہیں۔‘

بیان پر ویلس خاندان کے ارکان نے دستخط کیے جن میں ان کی اہلیہ ایما ہیمنگ بھی شامل ہیں جن سے ان کی دو بیٹیاں ہیں اور ان کی سابق اہلیہ ڈیمی مور اور ان کی تین بیٹیاں ہیں۔

اداکار 1980 اور 1990 کی دہائی میں ڈائی ہارڈ سیریز، دی سکستھ سینس، آرماگیڈن اور پلپ فکشن جیسی بلاک بسٹر فلموں میں اداکاری کرنے کے بعد گھر گھر میں مشہور ہوگئے۔

انھیں پانچ گولڈن گلوبز ایوارڈز کے لیے بھی نامزد کیا گیا جن میں انھوں نے ایک جیتا۔ وہ تین بار ایمی ایوارڈز میں نامزد ہوئے جن میں سے انھوں نے دو جیتے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More