اس حسین شہرکراچی میں کچھ تو بات ہے جو یہاں ہر کوئی آنے کو ترستا ہے۔ گرمی کی چھٹیاں ہوں تو دوسرے صوبوں سے والدین بچوں کو یہاں سیرو تفریح کیلئے لے آتے ہیں اور پھر کلفٹن، سی ویو، بنس روڈ گھومتے پھرتے اور کھاتے پیتے ہیں۔ اب انسان کو ہمیشہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے سواری کی ضرورت ہوتی ہے۔
تو ایسے میں ہم بس یا پھر اپنی ذاتی سوار ی کے سفر کو ترجیح دیتے ہیں مگر ایک وقت ایسا بھی تھا جب لوگ یہاں چلنے والی پرکشش اور ہوادار سواری ٹرام میں سفر کرنے کو پسند کیا کرتے تھے ۔ ابتداء میں یہ ٹرام سروس ایم اے جناح روڈ سے کیماڑی تک چلا کرتی تھی پھر کچھ سالوں بعد اسے سولجر بازار اور کینٹ اسٹیشن تک بڑھا دیا گیا۔
یہی نہیں پھر ایک ٹریک نشتر روڈ سے ایمپریس مارکیٹ تک بھی بنایا گیا۔ اپنے زمانے کی پر کشش اس سروس میں ایک گاڑی میں 60 سے زائد لوگ بیٹھ سکتے تھے ۔شہر میں چلنے والی اس ٹرام میں اردگرد شیشے نہیں لگے ہوتے تھے بلکہ بڑے بڑے ہوادان ہوا کرتے تھے۔ اس کا ٹریک سڑک کے عین بیچ و بیچ بنایا گیا تھا۔
مزید یہ کہ آج سے تقریباََ 131 سال پہلے ایسٹ انڈیا ٹرام وے کمپنی نے یہ سہولت کراچی کے لوگوں کو فراہم کی پھر آزادی کے بعد یہ کمپنی کراچی کے ایک شہر ی محمد علی چاولہ کو اپنی یہ سروس فروخت کر کے چلتی بنی۔
ابتداء میں اسٹیم انجن سے چلتی تھی مگر اس کے دھویں سے عوام پریشان ہوتی تھی اس وجہ سے اسے گھوڑوں کی مدد سے چلایا جانے لگا۔
کافی عرصے بعد پھر اس ٹرام کو پیٹرول اور ڈیزل انجن پر چلایا جانے لگا مگر اب 1970 تک اس سستی ترین سواری کو کراچی میں بند کرنا پڑا کیونکہ اس وقت سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہوانے والے ہنگاموں کی وجہ سے یہ فیصلہ کرنا پڑا۔