منی بجٹ کے واضح اور پوشیدہ ٹیکسوں سے عام آدمی کیسے متاثر ہو گا؟

بی بی سی اردو  |  Feb 16, 2023

EPA

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے فنانس سپلیمنٹری بل 2023 یا منی بجٹ کے تحت ان کی جانب سے 170 روپے کے اضافی ٹیکس اکٹھے کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پوری کرنے اور بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے منی بجٹ سے مختلف شعبوں میں ٹیکس کی شرح کو بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔

گیس، بجلی، پیٹرول اور دیگر بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے سے حکومت کو آئی ایم ایف قرض پروگرام کی بحالی کا امکان ہے جس کی ایک ارب ڈالر سے زائد کی قسط اب تک رکی ہوئی ہے۔

تاہم ماہرین معیشت کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح میں مزید اضافے سے عام آدمی بُری طرح متاثر ہوگا۔

ان کے خیال میں ان اقدامات سے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی تو بڑی حد تک ممکن ہے تاہم عام لوگوں کی آمدن سکڑنے سے روزمرہ کی زندگی مشکل تر ہو سکتی ہے۔

منی بجٹ میں کون سے ٹیکس اقدامات اٹھائے گئے

وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کیے جانے والے منی بجٹ میں 170 روپے کے اضافی ٹیکس اکٹھے کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

اس اضافی ریونیو کے لیے سب سے نمایاں سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی شرح کو سترہ سے اٹھارہ فیصد کرنے کا اقدام ہے جس کا اطلاق تمام شعبوں پر ہو گا جبکہ لگژری اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح کو سترہ سے بڑھا کر پچیس فیصد کر دیا گیا ہے۔

سگریٹ اور مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح کو بڑھا دیا گیا جبکہ سیمنٹ پر بھی اس کی شرح کو 1.50 روپے فی کلو سے بڑھا کر 2 روپے فی کلو گرام کر دیا گیا ہے۔

فرسٹ کلاس اور بزنس کلاس کی ایئر لائن ٹکٹوں پر ایکسائز ڈیوٹی بیس فیصد یا پچاس ہزار روپے، جو بھی زیادہ ہو، وہ لگائی جائے گی۔

انکم ٹیکس کی کیٹیگری میں شادی اور دیگر تقریبات پر دس فیصد کے حساب سے ایڈوانس ٹیکس لگا دیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب حصص خریدنے پر بھی دس فیصد کے حساب سے ایڈوانس لگا دیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت کے مطابق دودھ، دالوں، گندم، چاول اور گوشت کو سیلز ٹیکس کی شرح میں ہونے والے اضافے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔

EPAمنی بجٹ کے ٹیکس اقدامات سے مہنگائی کی شرح میں کیسے اضافہ ہو گا؟

پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پیش کیے جانے والے منی بجٹ میں اٹھائے گئے ٹیکس اقدامات میں سب سے نمایاں سیلز ٹیکس کی شرح کو سترہ سے اٹھارہ فیصد کرنا ہے۔

معاشی ماہرین کے مطابق سیلز ٹیکس کی شرح میں ہونے والا اضافہ دراصل مہنگائی کی شرح میں اضافے کا سبب بنے گا کیونکہ سیلز ٹیکس کھپت، یعنی اشیا کے استعمال، پر لگتا ہے اور اس اضافے سے چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس کی قیمت ایک عام صارف کو ادا کرنا پڑے گی۔

ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے بی بی سی کو بتایا کہ سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنے گا۔

انھوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس امپورٹ سٹیج سے لے کر چیزوں کی فروخت پر لگتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جب کوئی شے درآمد کی جائے گی تو اضافی سیلز ٹیکس ادا کرنا پڑے گا تو درآمدی چیز مہنگی ہو جائے گی۔

اسی طرح ملک کے اندر تیار ہونے والے اشیا کی فروخت پر بھی سیلز ٹیکس کی شرحبڑھا دی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ جب وہ چیز صارف خریدے گا تو اسے اضافی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

انھوں نے گندم، دال، گوشت وغیرہ کو حکومت کی جانب سے اضافی سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سیلز ٹیکس ایسی چیزوں پر لگتا ہے جو پیکجنگ میں آتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ جن چیزوں کو مستنثیٰ قرار دیا گیا ہے وہ تو ویسے ہی کھلی فروخت ہوتی ہیں، اس لیے حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کرنا کہ عام آدمی کے استعمال کی چیزوں کو اس میں سے چھوٹ دی گئی ہے، صحیح نہیں۔

انھوں نے کہا جب ایک عام آدمی گیس اور بجلی کا بل ادا کرتا ہے تو اس پر سیلز ٹیکس لگتا ہے اور اب صارفین کو اضافی بل سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے کی وجہ سے ادا کرنا پڑے گا۔

’فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح بھی بڑھا دی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ امپورٹ ہونے والی چیزوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا جو عام لوگ بھی استمعال کرتے ہیں۔‘

معاشی امور کی ماہر ثنا توفیق نے بھی یہی کہا کہ حکومت کی جانب سے جن چیزوں کو اضافی سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، وہ تو کھلی صورت میں فروخت ہوتی ہیں تاہم بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جو عام استعمال کی چیزیں ہیں اور ان پر اضافی سیلز ٹیکس صارفین کو ادا کرنا پڑے گا۔

انھوں نے کہا کہ ’خوردنی تیل، چائے وغیرہ بھی عام آدمی کے استعمال کی چیزیں ہیں جن پر اضافی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔‘

’سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی کی شرح کو بڑھا دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ تعمیراتی لاگت بھی بڑھ جائے گی اور اس کا اثر ایک عام آدمی پر بھی پڑے گا۔‘

EPA

انھوں نے کہا کہ ’جی ایس ٹی میں اضافے سے موبائل کے ڈیٹا چارجز بھی بڑھ جائیں گے یعنی کال کرنے اور انٹر نیٹ استعمال کرنے کے چارجز میں بھی اضافہ ہو گا جو ایک عام شخص کی آج کل ایک اہم ضرورت ہے۔‘

’فی الحال بین الاقوامی مارکیٹ میں اجناس اور توانائی مصنوعات کی قیمتوں میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے ورنہ ان کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے ملکی صارفین کو روپے کی بے قدری اور اضافی سیلز ٹیکس کی وجہ سے بہت زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی۔‘

کراچی چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئیر نائب صدر توصیف احمد نے کہا کہ سیلز ٹیکس ہر شعبے میں بڑھا دیا گیا ہے۔ ’اس کا مطلب ہے کہ صنعت میں استعمال ہونے والا خام مال بھی اس کی زد میں ہو گا اور وہ انڈسٹری کی پیداواری لاگت کو بڑھا ئے گا جو لازمی طور پر صارفین سے وصول کی جائے گی۔‘

ان کے مطابق ’اضافی سیلز ٹیکس سب سے زیادہ عام آدمی کو متاثر کرے گا کیونکہ وہی اینڈ کنزیومر ہوتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں مہنگائی سے پریشان عوام: ’اب ہم ایک وقت کا کھانا ہی کھا سکتے ہیں‘

دنیا میں قیمتوں میں اتنا اضافہ کیوں ہو رہا ہے اور سب سے زیادہ مہنگائی کس ملک میں ہوئی ہے؟

آئی ایم ایف کیا ہے اور یہ پاکستان جیسے معاشی مشکلات کے شکار ممالک کو قرض کیوں دیتا ہے؟

بڑھتی مہنگائی کب رُکے گی؟

پاکستان میں جنوری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 27 فیصد سے زائد رہی جو 48 برس میں ملک میں مہنگائی کی بلند ترین شرح ہے۔ مہنگائی کی شرح میں ہونے والے اضافے کی بڑی وجہ ملک میں اشیائے خورد و نوش، ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہونے والا بڑا اضافہ ہے۔

ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا کہ ملک میں مہنگائی کی شرح، جو پہلے ہی تقریباً پانچ دہائیوں کی بلند سطح پر موجود ہے، میں اضافی سیلز ٹیکس سے آنے والے اثر کا ایک صحیح تعین تو پاکستان میں ممکن نہیں تاہم اندازوں کے مطابق مہنگائی کی شرح تیس فیصد سے زیادہ ہو جائے گی۔

ان کے مطابق اس میں بڑی وجہ اشیائے خورد و نوش کی چیزوں میں ہونے والا اضافہ اور اس کے ساتھ گیس، بجلی، ڈیزل و پیٹرول کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں کاروبار پر کوئی نگرانی تو ہے نہیں کہ وہ قیمتوں کا تعین کر سکے۔ ایک جانب اضافی سیلز ٹیکس صارفین کے لیے چیزوں کو مہنگی کرے گا تو دوسری جانب کاروباری افراد اور دکاندار اپنے حساب سے چیزوں کو بیچیں گے۔‘

تو مہنگائی کا یہ سلسلہ کب تھمے گا؟ اس پر وہ کہتے ہیں کہ جب تک آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان موجود ہے تو مہنگائی کی شرح بڑھتی رہے گی کیونکہ یہ پروگرام اس طرح ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ جن میں ملکوں کو جکڑ کر وہاں کی عوام پر مہنگائی کا اضافی بوجھ ڈالا جائے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More