میں بیٹے کے غم میں 2 ماہ روتا رہا ۔ جی ہاں یہ الفاظ ہیں ملک کے مشہور کامیڈین ناصر چنیوٹی کے۔ یہ منٹوں پر لوگوں کے چہروں پر ہنسی لے آتے ہیں مگر اندر سے بیٹے کی جدائی کا غم انہیں کھاتا گیا۔
عوام کے شہروں پر مسکراہٹ لانے والا یہ شخص کہتا ہے کہ اللہ کے کرم سے گھر میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں بیٹے گھر میں بیٹھ کر کھا سکتے ہیں مگر ان کے اچھے مستقبل کیلئے بیرون ملک بھیجا اور وہاں اب 1 سال بعد بیٹے کی کال آئی اور میں نے دیکھا کہ وہ سڑک پر چلتا ہوا آ رہا ہے اور مجھ سے کہتا ہے کہ بابا آپ کیسے ہیں ، میں نے کہا ٹھیک ہوں آپ اپنا بتاؤ۔
پھر ہوں تو میں باپ نا، سمجھ گیا کہ وہ پریشانم ہے اور میں نے پوچھا کہ بیٹا ڈر لگ رہا ہے تو وہ بولا جی بابا تو میں نے کہا کہ جب تک تمہارا گھر نہیں آتا یوں ہی مجھ سے بات کرو۔ اور تو اور اب وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہاں نوکری بھی کرتا ہے جس کے پیسے اپنی والدہ کو بھیجتا ہے، مجھ کو بھی اس عید میں 1 لاکھ روپے عیدی کے طور پر بھیجے۔
یہ نوکری بھی جان سے پیارے بیٹے کو اس لیے کرنے دی تاکہ اسے محنت کرنے کا پتا چلے کہ کس طرح ایک مرد اپنے گھر والوں کا سہارا بنتا ہے۔
یہی نہیں دوسرے بیٹے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ہماری شوبز کی دنیا میں آنا چاہتا ہے اور فٹبالر بننا چاہتا ہے، یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ فٹبالر بن بھی گیا ہے کیونکہ بالکل فٹبال کی طرح پھول گیا ہے نا۔