انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے ایک ٹرانس جینڈر جوڑے، جن کی حمل کی تصاویر دنیا بھر میں خبروں کا حصہ بنیں، نے اپنے بچے کی پیدائش کی خبر دی ہے۔
ضیا پاول نے بتایا کہ ان کے ساتھی زہد نے بدھ کی صبح بچے کو جنم دیا۔ پاول نے یہ خبر انسٹاگرام پر شیئر کرتے ہوئے تصویر پوسٹ کی، جس کی پیدائش وقت سے تقریباً ایک ماہ پہلے ہوئی ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ زہد اور بچہ، جس کا نام اور جنس انھوں نے ظاہر نہیں کی، دونوں ٹھیک ہیں۔
اس جوڑے نے ڈیڑھ سال قبل جب بچہ پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تو دونوں اپنی اپنی جنس کی تبدیلی کے مختلف مراحل پر تھے۔ اس کے بعد انھوں نے ڈاکٹر کے مشورے پر اپنی ہارمون تھراپی روک دی تھی۔
بچے کی پیدائش کے اعلان کے بعد سے جوڑے کے لیے ان کے سوشل میڈیا پیجز پر مبارکبادوں کا سلسلہ جاری ہے۔
’لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹرانس مردوں کے بچے نہیں ہو سکتے‘
کیرالہ کے ٹرانس جینڈر جوڑے کے وائرل فوٹو شوٹ کے بعد جب بی بی سی نے ان سے پوچھا کہ لوگ اس بچے کی پیدائش کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں تو ضیا زور سے ہنس پڑیں۔
ضیا نے کہا کہ ’ٹرانس جینڈر کمیونٹی بہت خوش ہے تاہم ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے اندر اور باہر ایسے بھی لوگ ہیں جو فرسودہ تصورات میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ٹرانس مردوں کے بچے نہیں ہو سکتے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘
ضیا ایک لڑکے کے طور پر پیدا ہوئے لیکن انھوں نے ’ماں‘ کہلانے کا انتخاب کیا جبکہ زہد لڑکی پیدا ہوئے لیکن اب خود کو مرد کہلوانا پسند کرتے ہیں۔
ان دونوں کی ملاقات تین سال قبل ریاست کے ضلع کوزی کوڈ میں ہوئی تھی۔
’ڈیڑھ سال قبل ہم نے بچہ پیدا کرنے کا فیصلہ کیا‘
زہد کی بیضہ دانی اور بچہ دانی کو نہیں ہٹایا گیا کیونکہ وہ ٹیسٹوسٹیرون ہارمونل تھراپی سے گزر رہے تھے جبکہ ضیا اپنی پسند کی جنس کے لیے ہارمون تھراپی سے گزر رہی تھیں۔
ضیا کا کہنا ہے کہ ’تقریباً ڈیڑھ سال قبل ہم نے بچہ پیدا کرنے کا فیصلہ کیا، اس وقت ہم نے ڈاکٹر کے مشورے پر ہارمونل تھراپی بند کر دی۔‘
ہم نے پوچھا کہ کیا آپ دونوں اس لیے ساتھ آئے تاکہ بچہ پیدا ہو؟ اس سوال پر ضیا نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ ’نہیں ہمیں بس محبت ہو گئی تھی۔‘
ان کی محبت کا سلسلہ مختلف حالات میں اپنے اپنے خاندان سے علیحدگی کے طویل عرصے بعد پروان چڑھا۔
ضیا نے کہا کہ ’میں ایک قدامت پسند مسلم گھرانے سے ہوں، جنھوں نے مجھے کبھی کلاسیکل رقص سیکھنے کی اجازت نہیں دی۔ وہ اتنے پرانے خیال کے تھے کہ انھوں نے میرے بال کاٹ دیے تاکہ میں رقص نہ کرسکوں۔ ایک یوتھ فیسٹیول تھا جس میں، میں نے شرکت کی اور پھر وہاں سے کبھی گھر نہیں لوٹی۔‘
زہد کی کہانی بھی کچھ اسی قسم کی ہے۔ ان کا تعلق ایک مسیحی گھرانے سے ہے۔ جب زہد نے اپنے والدین کو حمل کے بارے میں بتایا تو ان کا رویہ مثبت ہو گیا۔ وہ زہد کی حمل کے دوران مدد کرنے لگے لیکن کیا یہ جوڑا مالی طور پر بچے کی پرورش کرنے کے قابل بھی ہے؟
اس کے جواب میں ضیا کا کہنا ہے کہ ’زندگی گزارنا بہت مشکل ہے۔ میرے پاس چھوٹے بچوں کو ڈانس سکھانے کا کام ہے جبکہ زہد ایک اکاؤنٹنٹ ہیں۔ ابتدائی طور پر انھوں نے حکومت کی طرف سے بنائے گئے تھیرووننتاپورم کے جینڈر پارک میں کام کیا۔‘
یہ بھی پڑھیے
ہم جنس پرست انڈین امریکی جوڑے شادی کے لیے منفرد انداز اپنانے لگے
عدالتی فیصلے کے باوجود ہم جنس پرست انڈین جوڑا خوف زدہ کیوں؟
'میں عورت کے جسم میں بے چین تھا'،
پیچیدہ ہارمون تھراپی
ڈاکٹر مہیش ڈی ایم ایک اینڈو کرائنولوجسٹ ہیں اور وہ بنگلورو کے ایسٹر سی ایم آئی ہسپتال میں جنسی تبدیلی کے معاملات کو دیکھتے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک بار حمل کا دور ختم ہو جانے کے بعد، وہ جنسی ہارمون تھراپی دوبارہ شروع کر سکتے ہیں اور اپنی خواہشات کو پورا کر سکتے ہیں۔ جب تک بیضہ دانی اور رحم کو نہیں ہٹا دیا جاتا تو 40 سال کی عمر تک کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔‘
ڈاکٹر مہیش ایک خاتون کی جنس تبدیل کرنے کے معاملے میں شامل رہے ہیں۔ ایڈم ہیری پائلٹ بننا چاہتی تھیں اور اسی لیے انھوں نے جنس تبدیل کر عورت سے مرد بننے کا فیصلہ کا تھا۔
ضیا اور زہد کو بتایا گیا ہے کہ جنس کی تبدیلی کا عمل مکمل ہونے کے بعد ایک بار جب ان کے سرٹیفکیٹ پر نئی جنس کا اندراج ہو جائے گا تو قانونی طور پر شادی کر سکتے ہیں۔
لیکن کیا ضیا اور زہد والدین بننے والے پہلے ٹرانس جینڈر جوڑے ہیں؟
ضیا نے پھر ہنستے ہوئے کہا ’ٹرانس جینڈر کمیونٹی میں ابھی تک کسی نے خود کو اصل والدین نہیں کہا۔‘