پاکستان میں ’غریب کی خوراک‘ سمجھی جانے والی دالوں کو خریدنا اب مشکل کیوں ہو گیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Feb 09, 2023

BBC

’جس دن کچھ نہیں کمایا اس دن گھر کے چولہے ٹھنڈے ہوتے ہیں۔۔۔‘ یہ کہنا ہے فاطمہ کا جو کراچی میں لیاری کی ٹمبر مارکیٹ کے علاقے میں رہتی ہیں اور ان کا گھرانہ تین افراد پر مشتمل ہے۔

معاشرے کے کم آمدنی والے طبقے سے فاطمہ کے خاندان کا تعلق ہے۔ ملک میں مہنگائی کی تازہ ترین لہر نے ملک کے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے تاہم کم آمدنی والے طبقہ اس سے اس وقت شدید متاثر نظر آتا ہے۔

فاطمہ کے خاندان کو اس دن کھانا نصیب ہوتا ہے جس دن وہ کچھ کما سکیں۔

فاطمہ بتاتی ہیں کہ ایک دن دال بناتے ہیں اور دو تین دن وہی دال کھاتے ہیں۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ ’اب تو دال بھی اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ گوشت کے برابر ہو گئی ہے۔ چالیس روپے میں اتنی دال مل جاتی تھی کہ دن کا کھانا کھا لیتے تھے لیکن اب وہی دال 80 اور 120 روپے میں ملتی ہے۔‘

انھوں نے کہا ’پہلے گوشت کھانا مشکل تھا لیکن اب تو حالات ایسے بن چکے ہیں کہ اب تو دال اور سبزی کھانا بھی مشکل تر بنتا چلا جا رہا ہے۔‘

فاطمہ حکومت سے گلہ کرتی ہیں کہ ’یہ غریبوں کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ کوئی بھی حکومت غریبوں کے لیے کچھ نہیں کرتی۔‘

فاطمہ نے جذباتی لہجے میں کہا کہ ’ایسی حکومت کے خلاف تو عوام کو باہر نکلنا چاہیے جس میں غریبوں کے لیے دال کھانا بھی مشکل بن چکا ہے۔ حکومت جا کر غریبوں کے گھر میں جھانکے تو اسے پتا چلے کہ ایک وقت کھانا ملتا ہے تو دوسرا وقت فاقے میں گزر جاتا ہے۔‘

فاطمہ حکومت سے مایوسی دکھائی دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اگر حکومت کچھ کر سکتی ہے تو لوگوں کے گھروں کے چولہے جلانے کے لیے کوئی کام کرے۔ ‘

BBC

دال کو پاکستان میں غریب کی خوراک سمجھا جاتا ہے تاہم ملک میں مہنگائی کی بلند شرح اور دالوں کی قیمت میں ہونے والے بڑے اضافے کی وجہ سے اب معاشرے کے کم آمدنی والے طبقات کے لیے دال کھانا بھی مشکل تر ہو چکا ہے۔

پاکستان میں جنوری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 27.6 فیصد ریکارڈ کی گئی جو 48 سال میں مہنگائی کی بلند ترین سطح ہے۔

ملک میں مہنگائی کی بلند شرح نے دالوں کی قیمتوں میں تو اضافہ کیا تاہم اس کی ایک اور بڑی وجہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں ہونے والا بے تحاشا اضافہ اور اس کے ساتھ ملکی بندرگاہوں پر دالوں سے بھرے کنٹینروں کا پھنسنا بھی ہے جو ایل سیز نہ کھلنے کے باعث گذشتہ دو ڈھائی مہینوں سے پھنسے ہوئے ہیں اور جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں دالوں کی قیمت میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔

مقامی مارکیٹ میں دالوں کی قیمت اس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہے جس کی وجہ سے کم آمدنی والے افراد شدید متاثر ہیں۔ پاکستان میں دالوں کی قیمت میں اضافہ اس لحاظ سے عجیب ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود مقامی ضرورت کو پورا کرنے کےلیے بیرون ملک سے دال امپورٹ کرتا ہے اور اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان دال کی مقامی ضرورت پورا کرنے کے لیے ایک ارب ڈالر سالانہ کی دالیں درآمد کرتا ہے۔

دالوں کی ضرورت کا ستر سے پچھتر دارومدار درآمدی دالوں پر ہے اور باقی ضرورت مقامی سطح پر پیدا ہونے والی دالوں سے پوری کی جاتی ہے۔

Getty Imagesدال کی قیمت میں کتنا اضافہ ہوا؟

مقامی مارکیٹ میں دالوں کی قیمت میں گذشتہ ڈھائی تین ماہ میں 50 سے 90 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

کراچی کی اناج منڈی میں دالوں کی موجودہ قیمت کا تقابل اکتوبر کے مہینے کے اختتام کی قیمتوں سے کیا جائے تو دال مونگ، مسور، ماش، کالا چنا اور سفید چنے کی کھپت سب سے زیادہ ہے اور مقامی سطح پر ان کی قیمت کو دیکھا جائے تو دال مونگ کی قیمت میں 65 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

دال چنا کی قیمت میں 55 فیصد اضافہ ہوا۔ دال مسور کی قیمت میں 80 فیصد اضافہ جبکہ دال ماش کی قیمت میں 95 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

اسی طرح کالے چنے کی قیمت میں 60 فیصد اور سفید چنے کی قیمت میں 95 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں مہنگائی: اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے نے متوسط طبقے اور کم آمدن والے خاندانوں کو کیسے متاثر کیا؟

پاکستان میں مہنگائی کب تک جاری رہے گی اور کیا اس میں کمی کا امکان ہے؟

پاکستان میں مہنگائی کے دور میں گوشت نہیں خرید سکتے تو پروٹین کیسے حاصل کریں؟

دال عام آدمی کی قوت خرید سے باہر کیوں؟

پاکستان اپنی ضروریات کی 75 سے 80 فیصد دال بیرون ملک سے منگواتا ہے۔ ملک میں دال کی سالانہ درآمد ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔

پاکسان کے ادارہ برائے شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق موجودہ مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں پاکسستان نے 53 کروڑ ڈالر مالیت کی دالیں درآمد کیں اور پاکستان میں درآمد ہونے والی دال کی مقدار سات لاکھ تیس ہزار ٹن تھی۔

اجناس کے شعبے کے ماہر عبد الرؤف محمد ابراہیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پاکستان میں سب سے زیادہ چنے کی دال استعمال ہوتی ہے۔ پانچ لاکھ ٹن سالانہ امپورٹ کرتے ہیں۔ مونگ کی دال دو لاکھ ٹن چاہیے۔ ایک لاکھ مقامی پیداوار ہوئی اور باقی امپورٹ کرنی ہے۔ تیسری مسور کی دال ہے۔ جو پہلے پنجاب میں بہت ہوتی تھی لیکن اب اس کی پیداوار نہیں ہوتی۔ مسور ڈھائی لاکھ ٹن درآمد کرنی ہوتی ہے۔ دال ماش برما میں پیدا ہوتی ہے اور اس کی کھپت دو لاکھ ٹن ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ملک کو تقریباً سولہ لاکھ ٹن دالیں درآمد کرنی ہوتی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ملک کی آبادی بڑھنے سے دالوں کی کھپت بڑھ رہی ہے تو اس کی افغانستان کی ضرورت کو بھی پورا کرنا پڑتا ہے۔ ‘

عبد الرؤف نے بتایا کہ ’آٹھ کروڑ ڈالر کی دالوں کے کنٹینرز رکے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں دال کی کمی ہے اور سپلائی نہ ہونے سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ان کنٹینرز کو فوری طور پر ریلیز کر کے سپلائی چین کو بہتر بنا کر دالوں کی قیمت کو کم کیا جا سکتا ہے ‘ تاہم ان کے بقول ’قیمتوں میں بڑی کمی ممکن نہیں کیونکہ دالیں درآمد ہوتی ہے اور ملک میں ڈالر کے ریٹ کے بڑھنے کی وجہ سے اس کی قیمت میں اضافہ ہوا۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر درآمدی دالیں پورٹ سے باہر نہیں ہوتیں تو رمضان سے پہلے اور رمضان میں ان کی قیمتوں میں اضافہ ڈبل ہو سکتا ہے کیونکہ رمضان میں ان کی کھپت بڑھ جاتی ہے۔‘

Getty Imagesزرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان دال کیوں درآمد کرتا ہے؟

پاکستان کی معیشت بنیادی طور پر زراعت پر مشتمل ہے اور پاکستان میں چلنے والی انڈسٹری بھی زراعت سے حاصل ہونے والے خام مال جیسے کپاس پر انحصار کرتی ہے۔

ملک میں دالوں کی پیداوار مسلسل کمی کا شکار ہے۔ پاکستان میں دالوں کے شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق موجودہ صدی کے پہلے دو تین سال میں ملک میں دالوں کی درآمد شروع ہوئی۔

گذشتہ مالی سال کے اکنامک سروے کے مطابق گذشتہ تین سال میں دالوں کی فی کس فراہمی میں کمی آئی۔ تین سال قبل فی کس 7.8 کلوگرام دال میسر تھی جو گذشتہ مالی سال میں 7.3 کلو گرام فی کس ہو گئی۔

اگرچہ پاکستان میں گذشتہ مالی سال میں دالوں کی پیداوار میں 29 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا تاہم ملک کی آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے گھریلو اور تجارتی مقاصد کے استعمال کے لیے دالوں کی کھپت بڑھتی جا رہی ہے اور اس کی وجہ سے مقامی پیداوار جو پہلے ہی ملکی ضرورت کے لیے ناکافی تھی وہ مزید کم ہوتی جا رہی ہے۔

پاکستان میں دالوں کی مقامی پیداوار کیوں نہیں بڑھ سکی؟

پاکستان میں دالوں کی مقامی پیداوار کے ملکی ضرورت کے لیے ناکافی ہونے کے بارے میں زرعی شعبے کے ماہر محمود نواز شاہ نے بتایا کہ دالوں کی پیداوار کو زراعت کے شعبے سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا، جسے حکومتی پالییسوں میں جائز حق نہیں مل رہا۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر دالوں کی بات کی جائے تو سندھ میں حیدرآباد کے ضلع میں مونگ کی پیداوار بڑے پیمانے پر ہوتی تھی اور اس دال کے لیے حیدرآباد کے علاقے میں فیکٹریاں بھی قائم کی گئیں لیکن آج صورتحال ہے یہ ہے کہ حیدرآباد میں مونگ کی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ فیکٹریاں بھی بند ہو گئیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’دالوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ مقامی طور پر ان کی پیداوار بڑھانے کے لیے تحقیق کے کام میں کسی خاص پیشرفت کا نہ ہونا ہے۔ مثلاً سندھ میں دالوں کی فصل کو ایک بیماری لگ گئی تو اس کی تشخیص ہی نہ ہو سکی اور نہ ہی اس کے تدارک کے لیے کوئی تحقیق ہو سکی۔‘

محمود نواز شاہ نے بتایا کہ ’دالوں کے لیے کوئی سرٹیفائنڈ بیج تیار نہیں کیا گیا کہ اس کی بنیاد پر فی ایکٹر زیادہ پیداوار حاصل کیا جا سکے۔ دالوں کی فصل کو ہی بیج کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو بہت کم پیداور دیتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان جو روایتی طور پر چائے اور خوردنی تیل درآمد کر رہا تھا وہ زراعت کے شعبے میں تحقیق و ترقی کر کے ان کی مقامی پیداوار کر کے ان کی درآمد کو کم کرتا تاہم اس کے برعکس ہوا اور پاکستان نے دالوں اور گندم تک کو درآمد کرنا شروع کر دیا۔‘

سندھ کے علاقے ٹنڈو جام میں کام کرنے والے سندھ ایگری کلچر ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر لیاقت علی بھٹو نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دالوں کی پیداوار میں اضافہ نہ ہونے کی بنیادی وجہ سرٹیفائیڈ بیج میں کسی خاص پیشرفت کا نہ ہونا ہے اسی طرح دالوں کی کاشت اور کٹائی کے لیے مشینری اور آلات بھی ایک بڑی وجہ ہے۔

ڈاکٹر بھٹو کا کہنا تھا کہ ’اگر اس شعبے میں پیشرفت نہیں ہو سکی تو اس کی ایک بڑی وجہ ریسرچ کے لیے درکار وسائل کا ناکافی ہونا بھی ہے کیونکہ جدید سائنسی خطوط پر ریسرچ کے لیے کافی وسائل درکار ہوتے ہیں جو ہمارے یہاں دستیاب نہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More