انڈیا میں سرکاری ملازمت کا جنون جس کے لیے والدین تک بچوں کو نقل کراتے پکڑے گئے

بی بی سی اردو  |  Feb 08, 2023

Getty Images

دسمبر کی ایک ٹھٹھرتی ہوئی سرد صبح انڈیا کی راجھستان ریاست کی پولیس نے ایک بس کو اودے پور کی جانب جاتے ہوئے دیکھا اور اس کا پیچھا کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس فیصلے کی وجہ یہ تھی کہ ایک رات قبل ان کو اطلاع ملی تھی کہ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی آسامیوں کے لیے ہونے والے ٹیسٹ کا پرچہ لیک ہونے والا ہے۔ اس ٹیسٹ کے لیے تقریباً بارہ سو امتحانی مراکز بنائے گئے تھے۔

انڈیا میں سرکاری ملازمت پانے کے لیے امیدوار کسی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے۔ ان میں سے ایک غیر قانونی راستہ نقل کا بھی ہے جبکہ چند امیدوار اپنی جگہ کسی اور کو ٹیسٹ دینے کے لیے معاوضہ بھی ادا کرتے ہیں اور چند ایسے بھی ہیں جو امتحان کا پرچہ ہی خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اودے پور جانے والی اس بس کی منزل بھی ایسا ہی ایک امتحانی مرکز تھا اور پولیس کو شک تھا کہ اس میں سوار افراد ہی پرچہ لیک کرنے والے ہیں۔

یہ بس ایک عمارت کے گرد چکر لگاتی رہی لیکن پھر پولیس نے اسے روک لیا۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اس بس میں ان کو چار سرکاری سکول کے اساتذہ ملے جو 20 امیدواروں کے پرچے حل کر رہے تھے۔

ان اساتذہ، جن کی امتحانی مراکز میں ڈیوٹی لگی تھی، نے امیدواروں سے معاوضہ وصول کیا تھا۔

اس سکینڈل میں پولیس نے 48 افراد کو گرفتار کیا جس کے بعد امتحان بھی منسوخ کر دیا گیا۔

اودے پور کے پولیس سربراہ وکاس شرما نے بی بی سی کو بتایا کہ حکام نے دو ایسے افراد کی گرفتاری کے لیے ڈیڑھ ہزار ڈالر کا انعام بھی رکھا ہے، جو پولیس کو مطلوب ہیں۔

BBC

یہ اپنی نوعیت کا کوئی انوکھا واقعہ نہیں بلکہ انڈیا میں ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں جن میں اہم سرکاری امتحان کا پرچہ لیک ہوا ہو۔ 2018 سے اب تک صرف راجھستان میں کم از کم 12 مرتبہ سرکاری ملازمت کے امتحان اسی باعث منسوخ کیے جا چکے ہیں۔

دوسری جانب امیدواروں کا کہنا ہے کہ وہ ان واقعات کی وجہ سے مایوس ہونے لگے ہیں۔

سنتوش کماواٹ مہاراشٹرا سے دو بار امتحان دینے کے لیے آ چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں اب دوبارہ ٹیسٹ دینے نہیں آؤں گی۔‘

’پہلی بار انھوں نے امتحان کینسل کر دیا۔ دوسری بار ہمارے پرچے اس وقت چھین لیے گئے جب سوالنامہ لیک ہو گیا۔‘

یہ معاملہ صرف راجھستان تک ہی محدود نہیں بلکہ انڈیا بھر میں عام ہیں جہاں لاکھوں لوگ بیروزگار اور محفوظ ملازمت کی تلاش میں رہتے ہیں۔

پنکج کمار اتر پردیش ریاست کے پبلک سروس کمیشن کے سربراہ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی حرکتوں کی وجہ سرکاری ملازمت کے لیے لوگوں کی خواہش ہے۔

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں 2014 سے نو بار اساتذہ اور جونیئر کلرک کی آسامیوں کے لیے ہونے والے امتحانات پرچہ لیک ہونے کی وجہ سے منسوخ ہو چکے ہیں۔

BBC

مغربی بنگال میںگذشتہ سال حکام نے اس وقت تحقیقات کا آغاز کیا تھا جب اساتذہ کی آسامیوں کے لیے امتحان سے چند گھنٹے قبل سوشل میڈیا پر سوالنامہ لیک ہو گیا۔

مدھیہ پردیش میں بھی معاملہ مختلف نہیں۔ 2009 میں اس ریاست میں امیدواروں نے ہمسایہ ریاست کے طلبا کو پرچہ دینے کے لیے اجرت پر رکھ لیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ سوالنامہ بھی لیک ہوا اور امیدواروں کو فروخت کیا گیا جس کے بعد ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا۔

بہار ہو یا اتر پردیش، پرچے لیک ہونے کا سکینڈل ہر جگہ عام ہے۔ بہار میں اکثر امتحانی مراکز میں امیدواروں کو جوتے اور جرابیں پہن کر بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جاتی تاکہ نقل کو روکا جا سکے۔

ماضی میں حکام جرمانہ، قید جیسی سزائیں سنا چکے ہیں حتیٰ کہ کئی بار والدین کو بھی نقل کروانے کے الزام میں حراست میں لیا جا چکا ہے۔

اتر پردیش ریاست میں تو اب ایسے امتحانات سی سی ٹی وی کیمرہ کی نگرانی میں لیے جاتے ہیں تاہم اس مسئلے کا اب تک کوئی واضح حل نہیں نکالا جا سکا کیوںکہ سزا کی ضمانت موجود ہے۔

اتر پردیش میں ایسے جرائم کے لیے عمر قید کی سزا کا قانون منظور کیا گیا لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے بھی صورتحال پر کوئی فرق نہیں پڑا۔

اشوک راٹھور راجھستان میں پیپر لیک ہونے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی نئے حل کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیے

نقل میں ٹیکنالوجی کا استعمال: داخلہ امتحان میں نقل کروانے والی خاتون انٹرپول کو مطلوب

سندھ میں بورڈ امتحانات: ’نقل مافیا ایک سرطان ہے جو کسی کے بس میں نہیں‘

انڈیا: کرناٹک میں نقل سے روکنے کے لیے کالج طلبہ کو گتے کے ڈبے پہنا دیے گئے

BBCسنتوش کماواٹ کا کہنا ہے کہ ’میں اب دوبارہ ٹیسٹ دینے نہیں آؤں گی۔‘

’ہم نے حکومت سے کہا ہے کہ امتحان شروع ہونے سے قبل پولیس اور انتظامیہ کو مطلع کریں اور ان کو اس عمل میں شامل کریں تاکہ سوالنامہ دھوکے بازوں کی پہنچ سے دور رکھا جا سکے جیسے بیلٹ باکس ووٹ گننے سے پہلے تک محفوظ رکھے جاتے ہیں۔‘

ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ مسئلہ دراصل بیروزگاری کی وجہ سے ہے۔

خود مختار ادارے سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے مطابق انڈیا میں بیروزگاری کی شرح دسمبر 2022 میں آٹھ فیصد تک جا پہنچی تھی۔ 2021 میں یہ شرح سات فیصد سے کم تھی۔

انڈیا میں تقریباً دو کروڑ افراد وفاقی اور ریاستی حکومتوں کے ملازم ہیں اور حکام کا ماننا ہے کہ تقریباً 10 لاکھ آسامیاں اس وقت بھی خالی ہیں۔

گروچرن داس سیاسی امور کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انڈیا کے پاس اپنی 1.4 ارب آبادی کے لیے درکار ملازمتیں نہیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’نجی نوکریوں میں زندگی بھر کے لیے سکیورٹی نہیں ہوتی اور نہ ہی ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن ملتی ہے جو سرکاری ملازمت میں ہوتا ہے۔‘

دوسری جانب ملازمتوں کے خواہش مند کہتے ہیں کہ ان کو اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے کیوںکہ پرچے لیک ہونے اور امتحانات کی منسوخی کی وجہ سے ان کی عمر کی حد ہی گزرتی جا رہی ہے۔

دیویندر شرما کہتے ہیں کہ ’میں نے سرکاری ملازمت کے امتحان کی تیاری کے لیے کئی سال کوچنگ کلاس لی لیکن میرے زیادہ تر امتحان منسوخ ہو گئے۔‘

بیکانیر سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ دیویندر 10 سال سے سرکاری ملازمت کے لیے درخواست دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرے والدین ناکامی پر مجھے مورد الزام ٹھہراتے ہیں حالانکہ ہمیں اس نظام نے مایوس کیا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More