ہاتھ میں چھڑی، کمانڈو یونیفارم اور لانگ بوٹ میں پوری شان سے چلنے والے پرویز مشرف اکتوبر 1999سے 2008تک پاکستان کے حکمران رہے اور سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ دیا۔
کارگل کی پہاڑیوں پر بھارت کا غرور خاک میں ملانے سے پہلے 1965 اور 1971جنگوں میں بہادری کے جوہر دکھائے والے پرویز مشرف فوجی وردی میں ایک سحر انگیز شخصیت کے ساتھ وردی اتارنے کے بعد بھی مخالفین کیلئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوئے۔
پرویز مشرف کے آمرانہ اقدامات کیخلاف سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ عدالتوں میں مخالفانہ تحاریک اٹھیں اورپرویز مشرف کو پہلے وردی اور بعد میں صدارت کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔
پاک فوج کے ساتویں سربراہ پرویز مشرف 11اگست 1943 دہلی میں پیدا ہوئے اور1961 میں 18 سال کی عمر میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں داخلہ لیا اور 1964 میں تربیت مکمل کی۔ انہیں آرٹلری رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے طور پر کمیشن ملا اور پاک بھارت سرحد کے قریب تعینات کیا گیا۔
پاک بھارت جنگیں اور تنازعات
پرویز مشرف کشمیر جنگ میں کھیم کرن سیکٹر، لاہور اور سیالکوٹ کے جنگی علاقوں میں بھی حصہ لیا تھا۔ جنگ کے دوران بہادری کے لیے تمغہ بھی حاصل کیا۔ 1965 کی جنگ کے خاتمے کے فوراً بعد اسپیشل سروس گروپ میں شمولیت اختیار کی۔ 1966 سے 1972 تک ایس ایس جی میں خدمات انجام دیں جس کے دوران کپتان اور میجر کے عہدے پر ترقی دی گئی۔
بھارت کے ساتھ 1971 کی جنگ کے دوران پرویز مشرف ایس ایس جی کمانڈو بٹالین کے کمپنی کمانڈر تھے۔1971 کی جنگ کے دوران انہیں آرمی نیوی کی مشترکہ فوجی کارروائیوں میں شامل ہونے کے لیے مشرقی پاکستان روانہ ہونا تھا لیکن بھارتی فوج کی جنوبی پاکستان کی طرف پیش قدمی کے بعد یہ تعیناتی منسوخ کر دی گئی۔
پرویزمشرف کو 1974 میں ترقی دے کر لیفٹیننٹ کرنل اور 1978 میں کرنل بنا دیا گیا۔ 1980 کی دہائی میں اسٹاف آفیسر کے طور پرانہون نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کی تعلیم حاصل کی اور پھر مختصر طور پر کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج میں جنگی علوم کے اسسٹنٹ پروفیسر اور پھر NDU میں پولیٹیکل سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کام کیا۔
1987 میں پرویز مشرف سیاچن گلیشیر کے قریب ایس ایس جی کی ایک نئی کمپنی کے بریگیڈ کمانڈر بنے۔ انہیں اس وقت کے صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیاء الحق نے ذاتی طور پر پہاڑی اور آرکٹک جنگ کے وسیع تجربے کی وجہ سے اس ذمہ داری کے لیے منتخب کیا تھا۔
چیف آف آرمی اسٹاف
1998 میں وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کے درمیان اختلافات کی وجہ سے نئے فوجی سربراہ کیلئے تیسرے نمبر پر موجود پرویز مشرف کا انتخاب کیا گیا لیکن کارگل کا محاذ نوازشریف اور پرویز مشرف کے درمیان وجہ تنازعہ بن گیا۔پرویزمشرف سری لنکن فوج کی 50 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کے بعد پاکستان واپس آرہے تھے کہ وزیر اعظم کے دفتر سے احکامات جاری ہونے کے بعد ان کی پرواز کو کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈنگ کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا جس کے بعد وزیراعظم نوازشریف کو گھر میں نظر بند کرکے پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا۔
چیف ایگزیکٹو/ آخری وقت
پرویز مشرف بارہ اکتوبر 1999 کو نواز شریف کی حکومت ختم کرکے چیف ایگزیکٹو بن گئے اور نائن الیون حملے کے بعد القاعدہ کےخلاف افغان جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بننے کی امریکی پیش کش بھی قبول کی۔
اپریل 2002 میں وہ ریفرنڈم کرا کے باقاعدہ صدر پاکستان منتخب ہوگئے، سال دو ہزار چار میں اسمبلی سے مسلم لیگ ق کی حمایت سے آئین میں سترھویں ترمیم کراکے مزید پانچ سال کے لیے باوردی صدر منتخب ہوگئے۔
پرویزمشرف کے دور میں ملکی دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے جاری منصوبوں کے ساتھ میزائل ٹیکنالوجی سمیت دیگر خود انحصاری پر مشتمل دفاعی منصوبوں کا آغاز کیا گیا، ان کے دور کو بہتر معاشی دور سمجھا جاتا ہے جہاں پاکستان آئی ایم ایف کے قرض سے نجات حاصل کرسکا تھا۔
نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے آئین مخالف اقدامات کرکے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو معزول کردیا جوایک بڑا تنازع بنا اور عدلیہ آزادی تحریک شروع ہوئی، جنرل پرویز مشرف کو فوج کے سربراہ کے عہدے سے نو سال بعد 28 نومبر 2007 کو سبکدوش ہونا پڑا۔
29 نومبر 2007 کو پانچ سال کے نئے دور کے لیے صدر کا حلف اُٹھایا لیکن وہ اس عہدے پر زیادہ عرصے برقرار نہ رہ سکے، بے نظیر بھٹو کی پاکستا ن آمد کے بعد جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے لیے اقتدار پر قائم رہنے میں مشکلات پیدا ہوئیں، بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ملک میں عام انتخابات کے نتائج میں واضح تبدیلی سامنے آئی اور جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے 18 اگست 2008 کو قوم سے خطاب میں اپنے مستعفی ہو نے کا اعلان کردیا، بعد میں انہیں مکمل اعزاز کے ساتھ بیرون ملک رخصت کیا گیا۔
دسمبر 2019 کو پاکستان کی خصوصی عدالت نے غداری کے الزامات کے تحت انہیں سزائے موت سنائی لیکن لاہور ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو غیرآئینی قرار دے کر کالعدم کردیا، پرویز مشرف نے اس کے بعد اپنی زندگی کا باقی حصہ لندن اور دبئی گزارا، آخری ایام میں وہ شدید علیل رہے اور پانچ فروری 2023 کو دبئی میں انتقال کرگئے۔