وزیرستان میں جاری احتجاج ’اولسی پاسون‘ کیا ہے اور کیا یہ مسائل کے حل میں سودمند ثابت ہو رہا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jan 11, 2023

BBC

’ہماری آنکھوں کے سامنے کتنے واقعات ہوئے ہیں، عارف وزیر کو مارا گیا، ہمارے گاؤں کے ایک نوجوان طالبعلم جمشید کو مسلح افراد اغوا کر کے لے گئے، پیٹرول پمپوں اور تھانوں پر حملے ہوئے ہیں۔۔۔ وزیرستان میں بدامنی کی انتہا ہے اور تحفظ کہیں نہیں ہے۔‘

احمد حسن جنوبی وزیرستان میں جاری ’اولسی پاسون‘ میں گذشتہ پانچ روز سے بیٹھے ہیں۔ ان کی طرح بڑی تعداد میں وزیرستان کے رہائشی اس میں شریک ہیں اور ان کا ایک بڑا مطالبہ علاقے میں امن کا قیام ہے۔

احمد حسن وزیر نے دعویٰ کیا کہ ’جمشید نوجوان طالبعلم ہیں اور ان کے والد تجارت کرتے ہیں۔ جمشید والد کی تیمارداری کے لیے آئے تھے کہ اتنے میں کالے شیشوں والی گاڑی میں مسلح افراد آئے، اسلحے کے زور پر جمشید کو گاڑی میں ڈالا اور وہاں سے چلے گئے۔ اس واقعے کو کوئی ڈیڑھ ماہ ہونے کو ہے لیکن جمشید کا کچھ علم نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس طرح کے متعدد واقعات یہاں پیش آ چکے ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں احتجاج کیوں کیا جا رہا ہے اور مظاہرین کے مطالبات کیا ہیں؟ یہ جاننے سے قبل پڑھیے کہ ’اولسی پاسون‘ حقیقت میں ہے کیا؟

اولسی پاسون کیا ہے؟

اولسی پاسون بنیادی طور پر پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’عوامی بیداری‘ کے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں ’اولسی پاسون‘ کا سلسلہ سوات میں اس وقت شروع ہوا جب حکومت کی جانب سے کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران مسلح افراد سوات کے علاقے مٹہ میں داخل ہو گئے تھے۔

سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز سامنے آئیں جن میں ٹی ٹی پی کے مسلح افراد نے پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا اور ایک ڈی ایس پی زخمی ہو گئے تھے۔

اس واقعے کے بعد اہلکاروں کو بازیاب کر لیا گیا تھا لیکن سوات میں مقامی لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ سوات میں بڑی تعداد میں لوگ ’اولسی پاسون‘ نامی احتجاجی تحریک کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے اور اس میں تمام سیاسی جماعتیں شامل تھیں لیکن کسی بھی سیاسی جماعت کا پرچم یا نشانی سامنے نہیں لائی گئی جس کی وجہ سے مقامی سطح پر اس تحریک کو عام شہریوں کی حمایت حاصل ہوئی۔

یاد رہے کہ سوات سے ’اولسی پاسون‘ تحریک دیگر علاقوں میں پھیل گئی لیکن اس تحریک کا کوئی بھی مرکزی رہنما نہیں ہے بلکہ یہ مقامی سطح پر احتجاج کا طریقہ کار ہے۔ اولسی پاسون کے تحت باجوڑ، شمالی وزیرستان، بنوں کے قریب جانی خیل، لکی مروت اور اب جنوبی وزیرستان میں احتجاج جاری رہا اور اس تحریک میں شامل افراد نے خیبرپختونخوا کے شہروں میں امن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار علی اکبر نے بتایا کہ بنیادی طور پر ’اولسی پاسون‘ کا سلسلہ تین سال پہلے شروع ہوا اور اس کی بنیاد پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی کسی حد تک کامیابی ہے، کیونکہ پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم سے قبائلی علاقوں میں جو مسائل اٹھائے گئے، اُن کی طرف نا صرف توجہ دی گئی بلکہ کچھ مسائل حل بھی ہوئے۔

انھوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کی کچھ حد تک کامیابی کو دیکھتے اور بنیاد بناتے ہوئے دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں ’اولسی پاسون‘ کا سلسلہ شروع ہوا۔

انھوں نے کہا کہ اس میں تمام سیاسی جماعتیں اور مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی تنظیمیں شامل ہوتی ہیں لیکن  کسی ایک سیاسی پارٹی کی شناخت یعنی پرچم یا کسی قسم کا رنگ یا نعرہ اس تحریک کے دوران نہیں لگایا جاتا جس کی وجہ سے لوگ بڑی تعداد میں اس میں شامل ہوئے ہیں۔

’پارٹی بازی اور سیاست سے بلند ہو کر تمام لوگ مشترکہ طور پر متحد ہوئے اور ایک آواز بلند کی ہے۔ سوات میں اولسی پاسون کی کامیابی اس کی بڑی مثال ہے۔‘ علی اکبر کے مطابق جنوبی وزیرستان میں جاری اولسی پاسون کا دھرنا بھی اس سلسلے کی کڑی ہے اور ان کا بنیادی ایک مطالبہ ہے کہ یہ لوگ اپنے علاقے میں امن چاہتے ہیں۔‘

BBC

وزیرستان میں جاری مظاہرے میں شامل ایک فرد نے بی بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس خطے میں ایک مرتبہ پھر کسی قسم کے مسلح جتھے نہیں چاہتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں قانون اور آئین کے تحت تمام لوگ زندگی گزاریں اور پرامن رہیں۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مشتاق یوسفزئی کہتے ہیں کہ قومی اولسی پاسون کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ان علاقوں کی کوئی بھی سیاسی جماعت یا تنظیم شاید اس کا حوصلہ بھی نہیں رکھتی کہ وہ ان شدت پسندوں کے سامنے آ سکے۔ ’ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ جس تنظیم یا سیاسی جماعت نے شدت پسندوں کی مخالفت کی ہے ان پر حملے ہوئے ہیں۔‘

اولسی پاسون کا احتجاج

جنوبی وزیرستان میں مقامی لوگ جن میں مقامی سیاسی قائدین اور مختلف تنظیمیں شامل ہیں، پانچ روز سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ اس دھرنے میں 11 رکنی کمیٹی قائم کی گئی جو تمام 11 جماعتوں اور تنظیموں کی نمائندہ کمیٹی ہے۔ اس میں جمعیت علماء اسلام (ف) شامل نہیں، باقی تمام جماعتیں متحد ہیں۔

گذشتہ روز یعنی منگل کے دن دھرنے میں شامل مظاہرین نے شہر کے مختلف علاقوں کی جانب جانے والے راستے ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیے تھے اور کہا تھا کہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے ان کا احتجاج جاری رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ مقامی انتظامیہ کے ساتھ ان کے مذاکرات ہوئے ہیں لیکن اب تک اس میں تعطل پایا جاتا ہے۔

مطالبات کیا ہیں؟علاقے سے مسلح جتھوں کا خاتمہپولیس کو آئین و قانون کے تحت اختیارات، سہولیات اور تربیت کی فراہمیضرورت پڑنے پر فوج اور ایف سی کی طلبیانگوراڈہ پر تجارت میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہپاکستانی شناختی کارڈ اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو آمد و رفت کی اجازتمطلوب افراد کی گرفتاری کے لیے قانون کے مطابق کارروائیکالے شیشوں والی سرکاری و غیر سرکاری گاڑیوں کے خلاف کارروائیامن کمیٹیوں، قومی لشکر یا 2007 کے معاہدے جیسے انتظامات کا خاتمہ، کیونکہ آئین کے تحت سابقہ فاٹا اب پاکستان کے دیگر حصوں کی طرح ہےBBC

مقامی قائدین سے جب پوچھا گیا کہ کیا حکام کی جانب سے آیا ایک مرتبہ پھر امن کمیٹیوں یا امن لشکروں کے قیام کے لیے مقامی لوگوں سے کہا جا رہا ہے تو ان سیاسی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے اور ناں ہی کسی نے کہا ہے کہ امن کمیٹیاں یا امن لشکر پھر سے قائم کیے جائیں۔

مقامی تاجر عمر شاہ کوٹی نے کہا کہ پشتون بیلٹ میں جو بدامنی ہے اس کے خلاف دھرنے تو ہر جگہ ہو رہے ہیں لیکن وزیرستان میں بھتہ خوری اور دیگر سنگین وارداتیں بھی ہو رہی ہیں، علاقے میں تجارت تباہ ہو گئی ہے اور اس دھرنے میں کہا گیا ہے کہ جنوبی وزیرستان سمیت پورے صوبے میں امن کو یقینی بنایا جائے۔

یہ بھی پڑھیے

جنگ بندی کا خاتمہ ہوتے ہی سکیورٹی صورتحال مخدوش: حکومت کیا کرتی رہی؟

سی ٹی ڈی دفتر پر حملہ: دہشتگردی سے تحفظ کا ذمہ دار محکمہ خود کیسے نشانہ بن گیا؟

ٹی ٹی پی میں مکران سے شامل ہونے والا گروہ کون ہے اور کیا اس سے شدت پسند کارروائیوں میں تیزی آئے گی؟

مقامی طور پر ذرائع نے بتایا کہ جب سے حکومت اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا تب سے اس علاقے میں مسلح افراد نظر آنے لگے تھے، وہ کن راستوں سے کہاں سے آئے اس کا علم نہیں ہے لیکن اس دوران ان کی سرگرمیاں بڑھنے لگی تھیں۔

مقامی لوگوں نے بتایا کہ تھانوں پر حملوں کے دوران پولیس ان شدت پسندوں کے خلاف مزاحمت نہیں کر پاتی تھی اور نہ ہی ان اہلکاروں کے پاس اسلحہ تھا کہ وہ اپنا دفاع کر سکتے جس وجہ سے اکثر علاقوں میں پولیس اہلکار یا تو چھٹیاں لینے لگ گئے یا تھانے چھوڑنا شروع ہو گئے تھے۔

سرکاری سطح پر اس کی تصدیق نہیں کی جا رہی لیکن پولیس ذرائع کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر متعدد حملے ہوئے اور ان سے کہا گیا کہ وہ کسی قسم کی مزاحمت نہ کریں وگرنہ ان کے خلاف بڑی کارروائیاں ہو سکتی ہیں۔

BBCانتظامیہ کا کیا مؤقف ہے؟

دھرنے میں شامل مظاہرین نے بتایا کہ انتظامیہ کے ساتھ ان کے مذاکرات ہوئے ہیں لیکن اب تک اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہے۔

لوئر جنوبی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر ناصر خان نے گذشتہ روز مقامی صحافیوں سے بات چییت میں کہا کہ انتظامیہ نے مظاہرین سے بات چیت کی ہے، انھیں سُنا ہے اور مظاہرین نے امن کے قیام کے علاوہ دیگر مطالبات کیے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ ان کی اپنی بھی کوشش ہے کہ علاقے میں امن قائم ہو اور حکام دن رات اس بارے میں کوششیں کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مظاہرین کے مطالبات پر غور کر رہے ہیں اور امید ہے کہ بہت جلد مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کر لیے جائیں گے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More