پاکستان کے پاس ٹماٹر، پیازاور ادویات کے پیسے بھی نہیں بچے، ٹیلی نار، انڈس موٹرز، سوزوکی، کریم سمیت گاڑیاں بنانے والی اور دیگر کونسی سیکڑوں کمپنیاں اپنے کاروبار بند کرکے پاکستان سے جارہی ہیں۔
سیکڑوں یا ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ بیروزگار ہورہے ہیں، عمران خان نے بجلی اور پیٹرول سستا کرکے عوام پر احسان کیا یا آنے والی حکومت کیلئے گڑھا کھودا، اسٹیٹ بینک کتنے دن ملک چلا سکتا ہے۔ پاکستان سے روزانہ کتنے ڈالر افغانستان اسمگل ہورہے ہیں۔ جان کر آپ کی آنکھیں کھلی رہ جائیں۔
پاکستان اس وقت دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے، اسٹیٹ بینک کے پاس جو پیسہ ہے وہ ایک ماہ کی امپورٹ کیلئے بھی ناکافی ہے اس لئے حکومت نے دوست ممالک سے قرضوں کیلئے بھاگ دوڑ شروع کردی ہے، حکومت نے سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر کیلئے دست سوال دراز کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے پاس صرف 4اشاریہ 5 ارب ڈالر رہ گئے۔
یہاں آپ کو یہ جان کر شدید حیرت ہوگی کہ جہاں حکومت ایک ایک ارب ڈالر کیلئے دوستوں سے بھیک مانگ رہی ہے وہیں پاکستان سے ایک ارب کے قریب ڈالر روزانہ اسمگل ہورہے ہیں، یہاں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاتے چلیں کہ آپ کروڑ پتی ہوں یا ارب پتی۔ بیرون ملک جاتے وقت آپ صرف 5 ہزار ڈالر تک لے کر جاسکتے ہیں لیکن پاکستان سے روز ڈالر افغانستان اسمگل ہورہا ہے۔
معیشت تباہ ہونے کی وجہ کیا ہے اور کاروبار بند ہونے سے کیا کیا مشکلات پیش آئینگی اس سے پہلے ہم ان حالات کے ذمہ داروں کو ایک نظر دیکھتے ہیں۔ سیاست اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، جہاں معیشت ڈولتی ہے وہاں حکومت کا دھڑن تختہ ہوجاتا ہے اور جب سیاست کی کشتی ڈوبتی ہے تو معیشت بھی زمین بوس ہوجاتی ہے۔ پاکستان کی معیشت کا حال یہ ہے کہ ہمارا سارا دار ومدار قرضوں اور امداد پر ہوتا ہے۔ اس لئے ہم قرض دینے والوں کی ہر جائز و ناجائز بات ماننے کے پابند ہوتے ہیں اور پاکستان میں ہولناک مہنگائی کی وجہ بھی قرضے ہی ہیں۔
یہاں ہوا یہ ہے کہ اپریل 2022 عمران خان کی حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد سے پہلے عمران خان کو پتا چل چکا تھا کہ ان کی حکومت جانے والی ہے تو انہوں نے اپنی سیاست بچانے کیلئے معیشت پر ایک داؤ کھیلا۔ عمران خان نے پیٹرول اور بجلی کی قیمت منجمد کردی ۔۔ یہاں لوگوں کو لگا کہ شائد عمران خان ان کو ریلیف دے رہے ہیں لیکن در حقیقت عمران خان آنے والی حکومت کیلئے جال بچھا رہے تھے جس کا انہوں نے بعد میں خود اعتراف بھی کیا۔
جب عمران خان نے بجلی اور تیل کی قیمتیں منجمد کردیں تو آئی ایم ایف ناراض ہوگیا اور آپ کو معلوم ہوگا کہ پاکستان کا سارا نظام ہی آئی ایم ایف کی مرہون منت ہے اور مہنگائی کا ذمہ دار بھی آئی ایم ایف ہی ہے۔ آئی ایم ایف کی ناراضگی کی وجہ سے قرضوں کا پروگرام ملتوی ہوا اور پی ڈی ایم حکومت چاروں شانے چت ہوگئی۔
اب یہاں پی ڈی ایم بھی حالات کی ذمہ دار ہے کیونکہ جب انہیں معلوم تھا کہ معاشی صورتحال تباہ ہوچکی ہے تو اپوزیشن کو اقتدار نہیں لینا چاہیے تھا ۔اپریل 2022 میں صورتحال یہ تھی کہ عوام پی ٹی آئی حکومت سے بیزار ہوچکے تھے اور عین ممکن تھا کہ عمران خان کی حکومت اپنے ہی بوجھ سے گر جاتی لیکن پی ڈی ایم نے غلط وقت پر سیاست کیلئے معیشت کی تباہی میں بھرپور حصہ ڈالا۔
آج پی ڈی ایم حکومت خود ملک دیوالیہ ہونے کا اعتراف کررہی ہے، پاکستان کے پاس امپورٹ کے پیسے تیزی سے ختم ہورہے ہیں، پاکستان میں کام کرنے والی ملکی و غیر ملکی کمپنیاں جن میں ٹیلی ناز، سوزوکی، کریم، اوبر، ملت ٹریکٹرز، ایلی للی ریسرچ لیبارٹری، سویل، نشاط چونیاں، بسم اللہ اسٹیل، بلوچستان وہیل، ایئر لفٹ، سیف ٹیکسٹائل، کار فرسٹ، جووی ڈلیوری، بولان کاسٹنگ، ڈاؤلینس اورٹویوٹا کے علاوہ سیکڑوں کمپنیاں اپنے کاروبار بند کررہی ہیں۔
کاروبار بند ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا ہر کاروبار کسی نہ کسی طرح ڈالر سے جڑا ہے۔ گاڑیاں اور ادویات بنانے والی اور دیگر کمپنیاں اسپیئر پارٹس۔ خام مال اور دیگر اشیاء بیرون ممالک سے امپورٹ کرتی ہیں، اسٹیٹ بینک کے پاس ڈالرز نہ ہونے کی وجہ سے کنٹینر بندر گاہوں پر پڑے ہیں لیکن کلیئر نہیں ہوپارہے جس کی وجہ سے کمپنیوں کی پیدا وار بند ہوچکی ہے۔
اگر صورتحال برقرار رہی اور حکومت جلد سے جلد ڈالرز کا انتظام نہ کرپائی تو خدا نخواستہ پاکستان کے حالات سری لنکا سے بھی بدتر ہوسکتے ہیں اور پاکستان کو اس تباہی کے اثرات سے نکلنے میں شائد کئی دہائیاں لگ جائینگی۔