افغانستان کی پہلی کار اور جاوید آفریدی کی پیشکش ۔۔ حقیقت کیا ہے؟

ہماری ویب  |  Jan 04, 2023

افغانستان کی جانب سے پہلی کار تیار کرنے کے بعد پاکستان کے معروف بزنس مین اور پشاور زلمی کے مالک جاوید آفریدی نے کار بنانے والے افغانیوں کو تعاون کی پیشکش کردی ہے لیکن آج ہم آپ کو اس کار کی اصلی حقیقت بتائینگے۔

سوشل میڈیا پر ان دنوں افغانستان میں تیار کی گئی خوبصورت کار کے چرچے ہیں اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کچھ سوشل میڈیا صارفین اس گاڑی کو لے کر پاکستان کو تضحیک کا نشانہ بنارہے ہیں اور اب جاوید آفریدی کی طرف سے کار بنانے والوں کو تعاون کی پیشکش کے بعد اس کار کی حقیقت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

جہاں تک جاوید آفریدی کا تعلق ہے تو وہ صرف پشاور زلمی کے مالک کی نہیں بلکہ برقی آلات اور گاڑیاں بنانے کا کام بھی کرتے ہیں اور ان کی کمپنی کئی جدید اور خوبصورت گاڑیاں متعارف کرواچکی ہے۔

افغانستان کی کار کا جائزہ لینے سے پہلے آپ کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ افغانستان طالبان کے اقتدار پر تسلط کے بعد گزشتہ کچھ عرصہ سے شدید مالی مسائل سے دوچار ہے اور یہاں ایسی جدید گاڑی بنانا عملی طور پر ناممکن ہے۔

اس لئے اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تواس گاڑی کا انجن کسی جاپانی گاڑی کا ہوگا، باقی پارٹس حتیٰ کہ شیشہ بھی جاپانی میڈ ہوگا، باقی اہم پارٹس بھی کسی امپورٹ شدہ ہونگے یعنی صرف اس گاڑی کے حصوں کو جوڑا گیا ہے ناں کہ پوری گاڑی ہی افغانستان میں بنی ہے۔

اگر یہ کوئی بہت بڑا کارنامہ ہے تو یہ تو پاکستان میں ڈینٹر پینٹر اور مکینک روز کرتے ہیں کیونکہ پرزے جوڑ کر گاڑی کی شکل تبدیل کرنا اور نئی گاڑیاں خود سے تیار کرنا الگ الگ کام ہیں۔

افغانستان میں بنائی جانے والی اسپورٹس کار کو ری فرنشڈ یا ری فیبریکیٹڈ کار تو کہا جاسکتا ہے لیکن میڈان افغانستان کا ٹیگ لگانا درست نہیں کیونکہ افغانستان اس گاڑی کا ایک پرزہ بھی نہیں بنا سکتا۔

یہ گاڑی افغانستان کے ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ڈیپارمنٹ کے انونشن سینٹر کی مدد سے این ٹاپ اسٹوڈیو نامی غیر سرکای کمپنی نے مقامی انجینئر محمد رضا آحمدی کے ساتھ مل کر بنائی ہے، اس گاڑی میں ٹویوٹا کرولا کا انجن استعمال کیا گیا ہے۔ اس اسپورٹس کارپر پانچ سال سے کام جاری تھا اور اب یہ رواں برس قطر میں گاڑیوں کی نمائش میں پیش کیے جانے کے لیے تیار ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More