فٹ بال ورلڈکپ اپنی پوری آب و تاب دکھانے کے بعد اختتام کے قریب پہنچ چکا ہے، اس ایونٹ میں مسلمانوں کا بھرپور اتحاد نظر آیا اور اسلام کے روشن پہلوؤں نے سیکڑوں غیر مسلموں کو ایمان کی روشنی سے نوازا۔
میدانوں میں سجدے اور شکرانے ادا کرنے کی روایت نے دنیا کو ایک ناقابل فراموش پیغام دیا، ایونٹ میں گوکہ کوئی مسلمان ٹیم فائنل تک نہیں پہنچ سکی لیکن فلسطین کی فتح نے پوری دنیا کے مسلمانوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کردیا ہے۔
پہلی بار عرب اور مسلمان سرزمین پر منعقد ہونے والا فٹ بال ورلڈکپ 18 دسمبر کو ارجنٹینا یا فرانس دونوں میں سے ایک کو فاتح کا تاج پہنانے کے بعد اختتام پذیر ہوجائے گا لیکن اس ایونٹ کی یادیں برسوں شائقین فٹ بال ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے ذہنوں میں تازہ رہیں گی۔
11ہزار 571 کلومیٹر رقبے اور تقریباً 30 لاکھ کی آبادی والے قطر کو 12 سال پہلے ورلڈکپ کی میزبانی کا اعزاز ملا۔ قطر نے 12 سال کڑی محنت کے بعد تقریباً 230 بلین ڈالر خرچ کے ایونٹ کا انعقاد ممکن بنایا۔
اس ایونٹ میں جہاں فلسطین کاز کو خوبصورتی سے اجاگر کیا گیا وہیں بیرون ممالک سے آنے والے شائقین کو اسلام کے مثبت تشخص سے بھی روشناس کروایا گیا۔
ایونٹ میں سعودی عرب کی جیت کے بعد پوری دنیا کے مسلمان ایونٹ کی طرف مائل ہوئے اور سیمی فائنل تک میدانوں میں سجدے اور شکرانے ادا کرنے کی خوبصورت روایت نے پوری دنیا میں مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرودیا۔
سعودی عرب کے بعد مراکش نے مسلمانوں کے اتحاد کو برقرار رکھا اور سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرکے پوری دنیا کے مسلمانوں کو ناقابل یقین خوشی دی۔ اس ایونٹ بے شمار خصوصیات کےساتھ ساتھ فلسطین کے مسئلے کو بھی پوری شدت سے دنیا کے سامنے اجاگر کیا گیا۔
قطر میں فلسطین کی آزادی کا معاملہ ہر میچ میں اٹھایا گیا اور میدان میں فلسطینی پرچموں کی بہار سے پوری دنیا اس حل طلب مسئلے کے حوالے سے سوچنے پر مجبور ہوئی جو حقیقت میں فلسطین کی ایک شاندار کامیابی ہے۔
جہاں مغربی ٹیموں کے کھلاڑی جیت کا جشن شرٹس اتار کر اور کئی طریقوں سے مناتے ہیں وہیں مسلمان ٹیموں کے کھلاڑی ہر فتح کے بعد سجدے اور شکرانے ادا کرتے رہے۔
مغرب میں کھیلوں کے دوران شراب کے استعمال کی وجہ سے ماحول انتہائی شرمناک ہوتا ہے لیکن قطر نے اسلامی قوانین پر عمل کیا اور شراب پر پابندی رہی جس کی وجہ سے پہلی بار میدان میں انتہائی خوبصورت ماحول میں لوگوں نے مقابلے دیکھے۔
قطر کے مسلمانوں نے شائقین کیلئے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیئے، غیر مسلموں کیلئے مہمان نوازی کی ایسی خوبصورت مثالیں قائم کی گئیں کہ مغرب سے آنے والے اسلام کے روشن پہلو سے اچھی طرح آشنا ہوگئے۔
قطر نے ایونٹ کیلئے آنے والے شائقین کو اسلام کی دعوت دینے کیلئے دنیا بھر کے علماء کی خدمات حاصل کیں اور اس کے نتیجے میں سیکڑوں غیر مسلم اسلام کی روشنی سے منور ہوئے۔
سیمی فائنل میں فرانس سے شکست کے باوجود مراکش کے کھلاڑی اللہ رب العزت کے حضور شکر بجانے لانے کیلئے سجدہ ریز ہوئے تو دنیا حیراں تھی کہ ہارنے کے باوجود بھی یہ مسلمان کیونکر شکر ادا کرتے ہیں کیونکہ اس ایونٹ میں ہارنے والی ہر ٹیم کے کھلاڑی روتے اور چیختے چلاتے ہوئے میدان سے باہر گئے لیکن یہ مسلمان تھے جنہوں نے جیت کے ساتھ ساتھ ہار کر بھی اللہ کا شکر ادا کرنا جاری رکھا۔
قطر فٹ بال ورلڈکپ کی میزبانی کرنے والا پہلا مسلمان ملک ہے، مستقبل میں شائد کسی مسلمان ملک کو میزبانی کا شرف مشکل سے ہی حاصل ہو لیکن اس ایونٹ میں مسلمانوں کے اتحاد، سجدے شکرانے اور مسئلہ فلسطین کو پوری شدت سے اجاگر کرکے جو تاریخ مسلمانوں نے رقم کی ہے وہ ہمیشہ کیلئے تاریخ میں امر ہوگئی ہے۔