بیٹی کی شادی ڈر کے جلدی کیوں کردی ؟ وجیہہ نے 17 سال بعد کیس جیتا مگر۔۔ بہت کچھ کرنا چاہتی تھی لیکن ایک جملے نے زندگی بدل دی

ہماری ویب  |  Oct 07, 2022

آج سے 22 سال قبل پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے انگلش کی ایک طالبہ، وجیہہ عروج، نے یونیورسٹی پر ایک بہت عجیب وغریب کیس کیا۔ انہیں ایک پرچے میں غیر حاضر قرار دیا گیا تھا جبکہ وہ اس دن پرچہ دے کر آئیں تھیں۔ یہ صاف صاف ایک کلرک کی غلطی تھی۔

وجیہہ اپنے والد کے ہمراہ ڈپارٹمنٹ پہنچیں تاکہ معاملہ حل کر سکیں۔ کیونکہ کلرک کی غلطی کی وجہ سے ان کو فیل کیا جارہا تھا ۔ غلطی کے بعد، یونیورسٹی کے کلرک کی جانب سے عروج کے والد کو یہ تجویز دینا کہ وہ اپنی بیٹی کی "سرگرمیوں" سے لاعلم تھے، نے یونیورسٹی کیمپس اور اس کے گھر کے اندر گپ شپ اور قیاس آرائیاں شروع کر دیں تھیں ۔ وہاں موجود کلرک نے ان کے والد سے کہا تھا کہ "آپ کو کیا پتہ آپ کی بیٹی پیپر کے بہانے کہاں جاتی ہے۔" یہ جملہ وجیہہ پر پہاڑ بن کر گرا۔ وہ کبھی کلرک کی شکل دیکھتیں تو کبھی اپنے والد کی۔ انہیں سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کریں۔ وہ اپنے ہی گھر والوں کے سامنے چور بن گئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی والدہ بھی انہیں عجیب نظروں سے دیکھنا شروع ہو گئیں تھیں۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ کلرک صرف اپنے کام سے کام رکھتا۔ وجیہہ کے بارے میں اپنی رائے دینے کی بجائے وہ حاضری رجسٹر چیک کرتا یا اس دن کے پرچوں میں ان کا پرچہ ڈھونڈتا۔ لیکن اس نے اپنے کام کی بجائے وجیہہ کے بارے میں رائے دینا زیادہ ضروری سمجھا، یہ سوچے بغیر کہ اس کا یہ جملہ وجیہہ کی زندگی کس قدر متاثر کر سکتا ہے۔ عروج نے یاد کیا کہ جب اس کے ہم جماعتوں کے طعنوں نے اس کے لیے ان کا سامنا کرنا مشکل بنا دیا تھا، عروج نے کہا، "کلاس روم میں گپ شپ کرتے ہوئے، وہ طنزیہ انداز میں کہتے تھے کہ کوئی امتحان دینے کے بہانے کہیں بھی جا سکتا ہے۔ اور وہ اس بات کو یقینی بناتے کہ میں انہیں سن سکوں،" عروج نے کہا اس کے خاندان نے اسے یونیورسٹی میں شام کی کلاسوں میں جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔

وجیہہ نے یونیورسٹی پر کیس کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کیس میں ان کا ساتھ ان کے والد نے دیا۔ جو کہ خود ایک جج رہ چکے ہیں۔ کیس درج ہونے کے چار ماہ بعد یونیورسٹی نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے عدالت میں ان کا حل شدہ پرچہ پیش کر دیا۔ اور انہیں پاس بھی کردیا۔ لیکن معاملہ اب ایک ڈگری سے کہیں بڑھ کر تھا۔ وجیہہ نے یونیورسٹی سے اپنے کردار پر لگے دھبے کا جواب مانگا۔ لہذا سن 2000 میں پنجاب یونیورسٹی کے خلاف 25 لاکھ روپے کا ہرجانے کا دعویٰ کردیا۔ پاکستان میں نظام عدل سے انصاف کے حصول میں وجیہہ عروج کو سترہ سال کا عرصہ لگ گیا۔ سن 2017 میں عدالت نے 38 سالہ وجیہہ عروج کے حق میں فیصلہ سنایا اور یونیورسٹی کو 25 لاکھ سے کم کرکے آٹھ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ بی بی سی نے رپورٹ کیا کہ پاکستانی نژاد خاتون، جو اس وقت کینیڈا میں مقیم ہیں، نے پنجاب یونیورسٹی کے خلاف 17 سالہ قانونی جنگ جیت لی ہے۔

برطانوی ریڈیو سے بات کرتے ہوۓ وجیہہ عروج نے کہا تھا کہ ”یونیورسٹی نے میرے خواب چکنا چور کردیٸے۔ اور کبھی معافی نہیں مانگی۔ ان کے اس عمل سے میری عزت اور وقار کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی پیسہ نہیں کرسکتا۔ میں اتنا زیادہ ڈیپریشن میں گئی کہ رو رو کے میری حالت بری ہو گئی۔ابتداٸی دنوں میں اسقدر ذہنی اذیت کا شکار ہوٸی کہ ذہن میں خودکشی کا خیال بھی آیا۔ اپنے تعلیمی کیریٸر میں کبھی فیل نہیں ہوٸی۔ مجھے پتہ تھا میں نے کیسا پرچہ دیا ھے۔ بہت زیادہ اچھا نہیں تو اتنا ضرور تھا کہ میں باآسانی پاس ہو جاٶں۔“ اس واقعے کے بعد، اس کے گھر والوں نے اس کی بدنامی کے خوف سے اس کی شادی کردی تھی اور عروج اپنے شوہر کے ساتھ کینیڈا چلی گئی۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے اور کیریئر شروع کرنے کے اس کے خواب کبھی پورے نہیں ہوئے۔

وجیہہ نے اس ایک جملے کا بوجھ 17 سال تک اٹھایا۔ وہ تو جی دار تھیں، معاملہ عدالت تک لے گئیں۔ ہر لڑکی ایسا نہیں کر سکتی۔ خاندان کی عزت ان کے بڑھتے قدم تھام لیتی ہے ورنہ یقین مانیں جو لوگ بغیر سوچے سمجھے بات کر دینے کے عادی ہیں وہ عدالت کے چکر کاٹتے پھریں اور اپنے منہ سے کسی لڑکی کے بارے میں نکلے ایک ایک جملے کی وضاحتیں دیتے پھریں۔ وجیہہ کے والدین نے ان کی ڈگری مکمل ہوتے ہی ان کی شادی کردی۔ انہیں ڈر تھا کہ بات مزید پھیلی تو کہیں وجیہہ کے رشتے آنا ہی بند نہ ہو جاٸیں۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتی تھیں مگر اس ایک جملے کی وجہ سے انہیں وہ سب نہیں کرنے دیا گیا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More