ان کے دور میں چیزوں کی قیمتیں نہیں بڑھتی تھی ۔۔ عورتوں سے ہاتھ نہ ملانے والے نواب آف کالا باغ کے بارے میں ایسے حقائق جو اس سے پہلے نہیں سنے ہوں گے

ہماری ویب  |  Oct 03, 2022

1۔ نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان، 20 جون 1910 کو کالا باغ میں پیدا ہوئے۔ ان کا گھرانہ روایتی جاگیردار گھرانہ تھا۔ ان کی عمر جب 14 برس تھی تو ان کے والد کا انتقال ہوگیا، جس کے بعد انگریزوں کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق ان کی جاگیر بطور امانت انگریزوں نے اپنے پاس رکھ لی۔ نواب امیر محمد خان نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایگری کلچر میں ڈگری حاصل کی ۔ 1932 میں انگریزوں نے ان کی جائیداد ان کو واپس کردی۔ ان کا شمار ملک کے بڑے جاگیرداروں میں ہوتا تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں جتنا عرصہ رہے، قومی لباس ہی زیب تن کیا۔ جو کہ یونیورسٹی کے قوانین کی خلاف ورزی تھی، اس پر وہ جرمانہ ادا کرتے رہے لیکن اپنی روش ترک نہیں کی۔

2۔ 1940 ء میں منٹو پارک لاہور میں جب قرار داد پاکستان منظور ہوئی تو قائد اعظم نے اس جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تحریر و تقریر کے ذریعے عوام کو بیدار کرنا ہوگا۔ ان کاموں کے لیے فنڈ زکی ضرورت ہوگی لہٰذا آپ تمام دوست تحریک کے لیے فنڈ زدیں۔ اجلاس میں موجود ہر آدمی نے اپنی حیثیت کے مطابق چندہ دینے کا اعلان کیا۔ جب تمام لوگوں نے امداد کا اعلان کردیا تو اجلاس میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک درازقد پگڑی سر پر سجائے ہوئے نوجوان پچھلی قطار سے اُٹھے اور اعلان کیا کہ سکیرٹری صاحب جتنا چندہ سب لوگوں نے جمع کرانے کا اعلان کیا ہے اس تمام چندے کے برابر تحریک پاکستان کے لیے میرا چندہ شامل کیا جائے۔

اجلاس میں شامل تمام روسائے پنجاب اور خود قائداعظم محمد علی جناح یہ اعلان سن کر دنگ رہ گئے ۔ قائداعظم نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے نواب ممتاز دولتانہ سے پوچھا، یہ نوجوان کون ہے؟ تو انہوں نے کہا، جناب! یہ ملک امیر محمد خان نواب آف کالاباغ ہیں۔

3۔ نواب صاحب کی ذاتی شکارگاہیں موجود تھیں۔ ان کو اچھی نسل کے گھوڑے اور بھیڑیں پالنے کا بہت شوق تھا۔ آج بھی ان کا خاندان اچھی نسل کے گھوڑوں کے لئے مشہور ہے۔ لیکن ان کی وجہ شہرت ان کا نواب ہونا نہیں بلکہ ان کی اصول پسندی تھی۔ ان کے بوہڑ والے بنگلے میں بڑے بڑے لوگ اور سربراہانِ مملکت مہمان بن کر آیا کرتے تھے، جس میں شاہ فیصل، اور امریکی خاتونِ اول، شاہ ایران، ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، اسکندرمرزا شامل ہیں۔ ملکہ برطانیہ کی آمد کے موقع پر ان سے ہاتھ ملانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ " میری مشرقی روایات مجھے ایک عورت سے ہاتھ ملانے کی اجازت نہیں دیتیں"۔

4۔ 1958 کے مارشل لا کے بعد جب ملک میں زرعی اصلاحات نافذ ہوئیں تو انھوں نے کالا باغ کی زرعی جائداد میں سے 22000 ایکڑ سے زیادہ زمین زرعی کمیشن کے سپرد کر دی۔ یکم جون 1960ء کو صدر ایوب خان نے انھیں مغربی پاکستان کا گورنر مقرر کیا۔ جب گورنر منتخب ہوئے تو اپنے خاندان کے کسی بھی فرد کا گورنر ہاؤس میں داخلہ ممنوع کردیا تھا ۔ اپنے سرکاری ملازمین کی تعیناتی کرتے ہوئے ان کا شجرہ تک کھنگال لیتے تھے اور پوری معلومات کرتے تھے۔ جب کسی نے اس بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو گھوڑا اور کتا بھی نسل دیکھ کر پالتے ہیں یہ تو پھر بھی میرے ملک کا معاملہ ہے۔

5۔ یہ 1965 کی جنگ کے بالکل ابتدائی دنوں کی بات ہے کہ انھوں نے تاجروں کو طلب کیا،تاجروں کا وفد ہال میں آ کر کھڑا ہوا تو کچھ دیر کے بعد وہ آئے اورکہا کہ لمبی چوڑی گفتگو کی گنجائش نہیں یہ جنگ کا زمانہ اور قربانی کا وقت ہے۔ اگر کسی نے اشیائے ضرورت ذخیرہ کیں یا مقررہ نرخ سے زائد پر فروخت کیں تو ذخیرہ شدہ سامان عوام میں تقسیم اور دکان مستقل طور پر سیل کر دی جائے گی۔

جنگ ہی کے دنوں میں ایک بار انھیں اطلاع ملی تھی کہ کوئی تاجر مقررہ نرخ سے زائد پر گندم فروخت کر رہا ہے۔ اسے کہا تم شاید یہ سمجھتے ہوگے کہ امیر محمد جنگ میں مصروف ہے اور تم من مانی کر لو گے؟ میری مونچھ کو تاؤ آنے سے پہلے نرخ اپنی جگہ پر آ جائیں ورنہ ایسی سزا دوں گا کہ دنیا یاد کرے گی، اس کے بعد پورے صوبے سے ایسی کوئی شکایت نہ آئی۔

6۔ نواب صاحب کے دور میں لاہور سے ایک غریب آدمی کا 5 سالہ بچہ اغوا ہوگیا۔ اور جب اخبارات میں اس واقعے کی خبریں لگیں تو نواب صاحب نے پولیس افسران سے کہا کہ مجھے یہ بچہ 24 گھنٹوں میں واپس چاہیے ، جب پولیس نے اپنی روایتی سستی کا مظاہرہ کیا تو نواب صاحب نے ایس پی، ایس ایس پی ، اور ڈی ایس پی کے بچوں کو اٹھوالیا اور ریاست کالا باغ بھجوادیا، اور کہا کہ جب تک وہ بچہ بازیاب نہیں ہو گا تم لوگ بھی اپنے بچوں سے نہیں مل سکتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بچہ شام تک بازیاب ہوگیا۔ اور مجرموں کو سرعام پھانسی دی گئی تو پھر اس کے بعد کسی بچے کا اغوا نہیں ہوا۔

7۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ صدارتی انتخاب میں بانی پاکستان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو شکست سے دوچار کرنے کے جوڑ توڑ میں نواب صاحب پوری طرح شریک رہے۔ مغربی پاکستان کے گورنر کے عہدے پر وہ 18ستمبر 1966ء تک فائز رہے۔ 1962ء اور 1965ء کے انتخابات میں ایوب خان کی کامیابی میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کے رعب اور دبدبے کا یہ عالم تھا کہ وہ خود مسلم لیگ کے رکن نہیں تھے لیکن کسی بھی نشست کے لیے مسلم لیگ کا ٹکٹ ان کی مرضی کے بغیر جاری نہیں ہوسکتا تھا۔ گورنری سے مستعفی ہونے کے بعد وہ اپنی جاگیر پر واپس چلے گئے۔

8۔ 26 نومبر 1967ء کو انہیں قتل کردیا گیا۔ سابق صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنی ڈائری میں اس واقعہ کا یوں ذکر کیا ہے کہ ” جنرل موسیٰ نے دوپہر میں فون پر بتایا کہ نواب کالا باغ کو انکے بیٹے اسد نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ نواب کی اپنے بیٹے سے سخت تکرار ہوگئی اور نواب نے اسد پر دو فائر کئے جن سے اسکا بازو زخمی ہوگیا۔ اسد نے جواب میں پانچ فائر کئے اور نواب کالا باغ موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ نواب کی موت المناک ہے لیکن اپنے جاگیردارانہ پس منظر کے سبب وہ عدم برداشت اور حاکمانہ رویئے کا شکار ہوگئے۔ نواب آف کالا باغ کی میت کو جس کسمپرسی سے دفن کیا گیا وہ عبرت کا نشان تھا وہ شخص جس کا رعب اور دبدبہ پورے مغربی پاکستان پر چلتا تھا‘ اس کے جنازے میں گنتی کے صرف چند افراد موجود تھے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More