ہر اِنسان کی موت کا وقت مقرر کر دیا گیا ہے۔بے شک زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ڈاکٹرز صرف انسانی جانوں کو خطرے سے نکالنے اور اُن کا بروقت علاج کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔
آ ج کل لوگ اپنی صحت کی پرواہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے موذی بیماریوں کا شکار بن جاتے ہیں۔ وہیں ایک سنگین بیماری دل کی ہے جن کے اکثر مریض ایمبولینس میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔
لیکن اگر مریضوں کو بروقت علاج کی سہولیات میسر نہ ہوں اور ایمبولینس کو مریض کے گھر تک پہنچنے میں تاخیر ہوجائے تو ایسی صورتحال میں مریض کا بچنا نا ممکن ہوجاتا ہے۔
شہر کراچی میں اس طرح کے واقعات آئے روز ہوتے رہتے ہیں کہ ایمبولینس کو کراچی کے سمندر جیسے ٹریفک سے نکلنے کی جگہ نہیں مل ماتی جس کے باعث مریض علاج سے قبل ہی دم توڑ دیتا ہے۔
یہ بھی انتہائی سنگین مسئلہ ہے جس پر آج تک کسی نے غور نہیں کیا ہوگا اور نہ اس پر کسی قسم کے اقدامات عمل میں لائے گئے ہوں گے کہ جس سے مریضوں کی قیمتی جانیں بچائی جا سکیں۔ یہاں زیر غور بات یہ بھی ہے یہاں دل کے مریضوں کی تعداد اسپتال لائے جانے والوں میں سے سے زیادہ ہے جنہیں وقت پر علاج نہ ملنے کے باعث اموات ہوجاتی ہیں۔
آج ہم کچھ اعداد و شمار کا ذکر کریں گے کہ شہر قائد میں ٹریفک جام کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر کتنے دل کے مریض دم توڑ جاتے ہیں۔
ایمرجنسی سروسز کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر روز 50 کے لگ بھگ افراد دل کا دورہ پڑنے سے طبی امداد ملنے سے پہلے ہی جاں بحق ہو جاتے ہیں۔
قومی ادارہ برائے امراض قلب کے ایمرجنسی سرورسز کے انچارج ڈاکٹر زائر حسین کے مطابق نے سماء چینل کو بتایا کہ این آئی سی وی ڈی میں 10 سے 20 مریض یومیہ مردہ حالت میں لائے جاتے ہیں، اور یہ وہ زندگیاں تھیں جو بچائی جاسکتی تھیں لیکن دل کے دورے کے بعد انہیں اسپتال لانے میں تاخیر ان کی موت کا باعث بنی۔
انہوں نے بتایا کہ رواں ہفتہ پیر کی صبح دل کے 2 مریض مردہ حالت میں این آئی سی وی ڈی لائے گئے جبکہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں مردہ لے کر آنے والے مریضوں کی تعداد 13 ہے اور کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز میں اتوار کی رات 9 مریضوں کو مردہ حالت میں لایا گیا۔
ڈاکٹر زائر حسین کا کہنا تھا کہ کراچی میں روزانہ مردہ حالت میں لائے جانے والے دل کے مریضوں کی اصل تعداد کتنی ہوگی، یہ ایک مشکل سوال ہے کیونکہ کراچی کے دوسرے اسپتالوں میں بھی مردہ حالت میں مریضوں کو لے جایا جاتا ہے، اگر ان کا پوسٹ مارٹم یا اٹاپسی کی جائے تو 50 سے 70 فیصد مریضوں کی وجہ موت مایو کارڈیک انفیکشن یا ہارٹ اٹیک ہی ہوگی۔
اس کے علاوہ قومی ادارہ برائے امراض قلب کے باہر سیوریج لائن خراب ہونے سے گندا پانی رفیقی شہید روڈ پر جمع ہوگیا، جس کے نتیجے میں گاڑیوں کی روانی متاثر ہونے کی وجہ سے ٹریفک گھنٹوں تک جام رہا، اس روڈ پر شہر کے 3 بڑے معروف سرکاری اسپتال جناح اسپتال، قومی ادارہ برائے صحت اطفال اور قومی ادارہ برائے امراض قلب موجود ہیں جہاں بدترین ٹریفک کے نتیجے میں مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ماہرین یہ کہتے ہیں کہ دل کے حملے کا شکار ہونے والے مریضوں کیلئے ایک گھنٹہ ان کی زندگی بچانے کیلئے انتہائی ضروری ہوتا ہے، ورنہ وقت پر علاج نہ ہونے کے سبب نتیجہ موت کی صورت میں نکلتا ہے۔
وہیں یہ بھی سلسلہ پیش آتا ہے اور قابل افسوس بات ہے کہ سندھ میں حاملہ خواتین 52 بچوں کو ایمبولینس میں جنم دے چکی ہیں۔
یہ رپورٹ سندھ ریسکیو اینڈ میڈیکل سروسز کی جاری کردہ ہے جس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال 2021 میں ایک لاکھ 52 ہزار 778 افراد کو ہنگامی امداد فرہم کی گئی جبکہ 52 بچوں کی ایمبولینسز میں پیدائش ہوئی۔ یہ سروس کراچی، حیدرآباد، ٹھٹھہ اور سجاول میں خدمات فراہم کرتی ہے۔