آنکھیں سرخ ہوجانا اور ۔۔ اومی کرون کی کتنی علامات ہیں اور یہ کس طرح ایک شخص پر اثر انداز ہوتا ہے؟

ہماری ویب  |  Jan 06, 2022

پہلے کورونا (کووڈ 19) نے دنیا بھر میں تباہی مچائی جس سے لاکھوں افراد زندگی سے محروم ہوگئے۔ یہ سلسلہ تاحال اب تک تھما نہیں ہے۔ کورونا کے وار جہاں ہلکے ہوئے وہیں ڈیلٹا اور موجودہ کورونا کی نئی قسم " اومی کرون" نامی وائرس نے لوگوں میں خوف پھیلایا ہوا ہے۔

فی الوقت اومی کرون کے اثرات پاکستان کے مختلف شہروں میں تیزی سے بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر درجنوں کیسز منظر عام پر آرہے ہیں جس سے پابندیاں مزید سخت کردی گئی ہیں۔

لوگ کورونا وائرس کی علامات سے تو واقف ہی ہوں گے مگر کیا آپ اومی کرون کی علامات سے واقفیت رکھتے ہیں؟

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ وائرس کی نئی قسم کے زیادہ تر کیسز، لگ بھگ ساٹھ فیصد، دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور میں سامنے آئے ہیں۔

اومی کرون وائرس کی کتنی اور کون کونسی علامات سامنے آئی ہیں آج ہم جانیں گے۔

امریکی شہر واشنگٹن میں ہونے والی حالیہ تحقیق کے طبی ماہرین نے سرخ آنکھوں اور جلد کی خارش کو بھی اومی کرون کی اہم علامت قرار دے دیا۔

کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ اومی کرون نام کا یہ وائرس اتنا مہلک نہیں ہے جتنا سمجھا جا رہا ہے لیکن یہ جس رفتار کے ساتھ پھیل رہا ہے یہ ایک پریشان کن بات ہے جس کی وجہ سے اس کی علامات جاننا بھی ضروری ہیں۔

امریکن اکیڈمی آف ڈرمٹالوجی ایسوسی ایشن کے ماہرین نے بتایا کہ مطالعے چند ایسے شواہد اکٹھا کیے جس کی بنیاد کہا جا سکتا ہے کہ اومی کرون سے متاثرہ شخص کے بال تیزی سے گرتے ہیں۔

ماہرین نے بتایاکہ بخار اور مدافعتی نظام کی کمزوری سے انسان جسمانی طور پر کمزور ہوتا ہے، جس کا سب سے زیادہ اثر انسان کی کھوپڑی پر پڑتا اور پھر بال گرنا شروع ہوجاتے ہیں۔

تحقیقی ماہرین نے بتایا کہ ابتدائی 6 ماہ کے دوران بال بہت زیادہ جھڑتے ہیں جبکہ 9ویں مہینے میں یہ سلسلہ رُک جاتا ہے اور پھر بالوں کی نشوونما پہلے کی دوبارہ طرح شروع ہوجاتی ہے۔

علاوہ ازیں ماہرین کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو اومی کرون کی تشخیص ہوئی انہیں جلدی بیماری یا خارش بھی شکایت بھی تھی۔

Omicron علامات سے متعلق کچھ ٹاپ ویب سائٹس نے بتایا کہ اس میں دل متلی ہوتا ،اسہال اور تھکاوٹ شامل ہیں، لیکن یہ علامات کورونا میں بھی پائی جاتی ہیں۔

مذکورہ وائرس کا خوف ہونا بھی چاہیئے کیونکہ یہ بھی اتنا ہی خطرناک سمجھا جا رہا ہے کہ جتنا کووڈ 19 کو دیکھا گیا۔ لیکن احتیاط کا دامن تھاما جائے تو وائرس کوئی بھی ہو اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More