ہیٹر کا استعمال سردیاں آتے ہی بڑھ جاتا ہے اور یہ موسم سرما کی اہم ترین ضرورت بھی ہے جس کے بغیر سردیاں گزارنا مشکل ہوجاتا ہے۔
کچھ لوگوں کو بہت سردی لگتی ہے اور وہ ہیٹر کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ ہیٹر کا زیادہ استعمال صحت کے لیے بہت خطرناک ہے۔ اسے جلاتے وقت کچھ خاص باتوں کا خیال رکھیں۔ خاص طور پر جن لوگوں کو سانس کے مسائل ہیں انہیں ہیٹر کا استعمال کم سے کم کرنا چاہیے۔
شدید ٹھنڈ سے بچنے کے لیے لوگ بہت سے کپڑے پہنتے ہیں لیکن پھر بھی سردی محسوس کرتے رہتے ہیں اور ہیٹر اس موسم میں زیادہ تر لوگوں کا سہارا ہوتا ہے۔ ہیٹر سردی سے تو آرام دیتا ہے لیکن یہ صحت کو کئی طرح سے نقصان بھی پہنچاتا ہے۔ اگر آپ بھی جسم کو گرم رکھنے کے لیے ہر وقت ہیٹر سے چلائے رکھتے ہیں تو اس کے بارے چند باتیں ایسی ہیں جو آپ لوگوں کے لیے جاننا ضروری ہیں۔
١-زیادہ تر ہیٹرز کے اندر سرخ گرم دھات کی سلاخیں یا سیرامک کور ہوتے ہیں جو کمرے کے درجہ حرارت کو بڑھانے کے لیے گرم ہوا کا اخراج کرتے ہیں۔ یہ حرارت ہوا کی نمی کو جذب کرتی ہے اور ہیٹر سے آنے والی ہوا بہت زیادہ خشک ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ روم ہیٹر ہوا سے آکسیجن جلانے کا کام بھی کرتے ہیں جس سے ہوا میں آکسیجن کم ہو جاتی ہے۔
ہیٹر سے باہر آنے والی ہوا جلد کو بہت خشک کردیتی ہے ۔ ہیٹر کی وجہ سے لوگوں کو نیند نہ آنا، متلی، سردرد جیسے مسائل بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
کنونشن ہیٹر، ہالوجن ہیٹر اور بلورز کا زیادہ استعمال آپ کو بیمار کر سکتا ہے۔ ان ہیٹرز سے خارج ہونے والے کیمیکل سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور اندرونی حصوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، خاص طور پر اگر آپ کو دمہ یا الرجی ہو۔
دمہ کے مریضوں کو روم ہیٹر سے سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ اگر آپ کو سانس کا کوئی مسئلہ ہے تو ہیٹر سے مخصوص فاصلے پر بیٹھیں۔ اس کے علاوہ برونکائٹس اور سائنوس کے مریضوں کو بھی اس سے الرجی ہو سکتی ہے۔ ان مریضوں کے پھیپھڑوں میں ہیٹر کی ہوا سے بلغم بننے لگتا ہے جس کی وجہ سے انہیں کھانسی اور چھینکیں آنے لگتی ہیں۔
ماہرین صحت کے مطابق اگر آپ دمہ کے مریض ہیں یا آپ کو الرجی کا مسئلہ ہے تو عام ہیٹر کے بجائے آئل ہیٹر کا استعمال کریں۔ اس ہیٹر میں تیل بھرے ہوئے پائپ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہوا خشک نہیں ہوتی۔ اگر آپ باقاعدہ ہیٹر استعمال کر رہے ہیں تو چند منٹ بعد ہی اسے بند کر دیں۔