شہیدوں کی جو موت ہوتی ہے وہ قوم کی حیات ہے اور اسی میں خدا کی طرف سے بھلائی بھی ہے۔ شہید کا شمار ہمیشہ زندوں میں ہوتا ہے کیونکہ یہ وہ بہادر ہوتے ہیں جو مطلب پرست نہیں بلکہ ملک کی خاطرخود کو کسی بھی طرح پیش کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے ہیں۔
آج ہم آپ کو بتائیں گے کہ مہران ایئربیس پر شہید ہونے والے 2 سالہ شہید لیفٹیننٹ یاسر عباس کی شہادت سے قبل آخری الفاظ جو انہوں نے اپنے والد کو کہے جس کے بعد ان کی شہادت ہوگئی:
''
بابا حملہ ہوا ہے، میں جا رہا ہوں۔
''
جس پر والد بتاتے ہیں کہ:
''
جوں ہی س نے کہا مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ ڈیوٹی پر ہے اور میں نے کہا یاسر جا رہا ہے، مجھے احساس ہو گیا کہ میرا بیٹ شہید ہوگیا ہے، میں نے فوری 2 رکعت نفل ادا کی اور خدا کا شکر کیا ساتھ یہ بھی التجا کی کہ اللہ میرے جوان بیٹے کی شہادت قبول کرنا۔
''
والد مذید بتاتے ہیں کہ:
''
بیٹے کی شہادت کا معلوم ہوگیا تھا، گھر جا کر بیوی اور بیٹی کو سمنبھالا ان کو رات بھر نہیں بتایا، صبح فجر پڑھ کر اکر ان کو بتایا کہ یاسر شہید ہوگیا، بہت مشکل وقت گزارا لیکن میرے بیٹے کا خواب پورا ہوگیا۔
''
یاسر کے بارے میں گھر والے کہتے ہیں:
اکلوتے بیٹے کو آرمی میں ملک کی خدمت کے لئے پیش کرنا اس کو تیار کرنا والدین کے لئے بہت مشکل ہوتا، مگر شہادت کا جذبہ کسی کو روک نہیں سکتا, 24 سالہ زندگی میں کبھی نماز نہیں چھوڑی، 3 دن پہلے شہید نے کہا کہ میں سمندر میں گر کر مرنا نہیں چاہتا میں اصل میں شہید ہونا چاہتا ہوں ملک کے خلاف سوچنے والوں کو ختم کرنے کے لئے لڑ کر مرنا چاہتا ہوں۔
یاسر کی والدہ کہتی ہیں:
''
دولہا بنانا چاہتی تھی مگر تابوت میں دیکھ کر دل مر گیا، لیکن ہمت کی اور جوان بیٹے کو جاتے دیکھ کر دل اور بڑا ہوگیا اب سوچتی ہوں شاید خدا نے میرے بیٹے کو شہدت کا رتبہ پانے کے لئے ہی دنیا میں بھیجا۔،
''
بہن کہتی ہے کہ بھائی کی یوں شہادت نہیں سوچی تھی ، اس کے بغیر جینا بہت مشکل ہے۔