“اور ہم اپنے بچوں کو یہ سب سکھا رہے ہیں“ یہ الفاظ آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے کے ہیں جو اپنے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر نئی درسی کتابوں پر تنقید کرتے ہوئے آگے کہتی ہیں “کیا ہم چار پانچ سال کی بچیوں کو خود کو اتنی چھوٹی عمر سے ڈھانپنے کی تربیت دے رہے ہیں؟
کیا بچیوں کو سر ڈھانپنے کی تربیت دینا غلط ہے؟
شرمین عبید کی اس بات سے سوشل میڈیا صارفین کافی غصے میں آگئے ہیں اور ان کی باتوں پر تنقید کرتے ہوئے سوال کررہے ہیں کہ کیا بچیوں کو سر ڈھانپنے کی تربیت دینا بری بات ہے؟
نصاب میں تبدیلی کا عمل
کسی بھی قوم کی ترقی کا راز اس میں پڑھائی جانے والی درسی کتابوں میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ چاہے کوئی بھی ترقی یافتہ قوم اٹھا کر دیکھ لیں وہاں بچوں کو ان کے کلچر اور روایات کے حساب سے یکساں نصاب پڑھایا جاتا ہے تاکہ بچوں میں اپنی روایات کا احترام پیدا ہو اور طبقاتی نظام کا خاتمہ ہو۔ اسی نظریے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پی ٹی آئی کی حکومت نے یہ ارادہ کیا تھا کہ وہ پورے پاکستان میں ایک ہی نصاب تعلیم رائج کریں گے۔ اور پھر وعدہ پورا کرتے ہوئے پہلی سے بارہویں کے لئے نئے نصاب پر مبنی درسی کتابیں بنائی گئیں جس میں پہلی سے پانچویں جماعت تک کا نصاب مارچ میں تبدیل کردیا گیا جبکہ باقی کلاسز کا نصاب اگلے سال تبدیل کیا جائے گا۔
کیا تنقید کا پہلو درست ہے؟
لیکن نئی درسی کتابوں کے مارکیٹ میں آتے ہی سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ ان کتابوں کی تصاویر میں لڑکیوں کو مکمل حجاب میں اور زمین پر بیٹھے دکھایا گیا ہے۔ جبکہ یہ تاثر درست نہیں ہے اور کتابوں کا صرف وہی رخ دکھایا جارہا ہے جس سے تنقید کی جاسکے۔ یہاں تک کے بہت سے پڑھے لکھے افراد بھی صرف تنقید برائے تنقید کرنے میں مصروف ہیں اور جہاں تک بات سر ڈھانپنے کی ہے تو یہ پاکستان کی روایت کا حصہ ہے اور عام خواتین اسی انداز میں لباس پہننا پسند کرتی ہیں۔ درسی کتابوں کا مقصد بچوں کو اچھا انسان بنانے کی تربیت کرنا ہوتا ہے تو اگر کتاب میں ایک اچھی عادت کو دکھایا جارہا ہے تو اس میں تنقید کرنے کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔