کل اولمپک میں نیزہ بازی کا مقابلہ جیتنے والے بھارتی کھلاڑی نیرج چوپڑا نے نے بتایا کہ وہ یورپ میں ٹریننگ حاصل کرتے رہے ہیں اور اس کے لئے انھوں نے اپنی گورنمنٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ویزا کی سخت پالیسیز کے باوجود بھارتی ایمبسی اور حکومت نے مجھے تمام سہولیات فراہم کیں جس پر وہ ان کے شکر گزار ہیں
دوسری جانب پاکستان میں میاں چنوں سے اولمپک مقابلے میں فائنل تک پہنچ کے ہار جانے والے ارشد ندیم ہیں جو اپنی قابلیت کے بل بوتے پرفائنل تک پہنچے لیکن یورپی تربیت یافتہ کھلاڑی کے آگے ان کی خود سے کی گئی محنت کام نہ آسکی۔ ہم کہنے کو تو کہہ دیتے ہیں کہ زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساتھی اور کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں۔ لیکن کچھ دیر سوچیے کہ کیا کڑی محنت کرنے والے یہ جوان اس جیت کے حقدار نہیں جو ان کے مقابل تربیت یافتہ کھلاڑیوں کو ملتی ہے؟
یہ سوال ہے حکومتی اداروں سے جو آپس کی تو تو میں میں میں اتنے مگن رہتے ہیں کہ ملک اور قوم کے نوجوانوں کے خواب کب مٹی میں مل جاتے ہیں انھیں خبر ہی نہیں ہوتی دوسری جانب بھارت ہے جو اپنے کھلاڑیوں پر پوری توجہ دے کر انہیں سہولیات اور اعلیٰ سے اعلیٰ ٹریننگ فراہم کرکے جیت اپنے نام کرلیتا ہے۔ ارشد ندیم کا انتھک محنت کے باوجود پاکستان کے لئے گولڈ میڈل حاصل کرنے کا خواب اس بار تو پورا نہیں ہوسکا لیکن حکومت اور متعلقہ ادارے ابھی بھی ہوش میں آجائیں اور ایسے ہنرمند نوجوانوں کو اپنی سرپرستی میں لے کر تربیت دلائیں تو کچھ مشکل نہیں ہمارے جوان بھی جیت کی خوشیاں منا سکیں