کسی کے بچوں سے چھین لیا ان کا باپ تو کوئی دل کا دورہ پڑنے سے دنیا چھوڑ گیا ۔۔ 3 مشہور قوال کی موت کیسے ہوئی؟ جانیئے ان کی زندگی کے آخری لمحات کیسے تھے

ہماری ویب  |  Aug 03, 2021

کلام ہوں یا قوالی، موسیقی ہو یا کوئی نغمہ آج بھی پاکستان میں سب سے زیادہ قوالی کو اہمیت حاصل ہے، جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک قوال جس طرح منظر کشی کرکے واقعات کو لفظوں میں ڈھال کر اور جذبات کی عکاسی اپنی آواز سے کرتا ہے وہ دل کو چھو لیتی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج بھی قوالی کی محافل میں کروڑوں لوگ بلا جھجک جاتے ہیں کیونکہ قوالی میں عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی اور سب سے زیاہدہ مہنگا تکت بھی قوالی پروگرامز میں جانے کے لئے لوگ خریدتے ہیں۔ اس کی ایک اور سب سے اہم وجہ پاکستان اور برِصغیر کی تاریخ میں گزرنے والے ایسے مایہ ناز قوال ہیں جن کی آوازوں نے سحر برپا کردیا، جس کان کی نظر ان کی آواز ہوئی وہی دل پھگل گیا، کہیں قوالی میں خدا کے حضور لب کشائی کر دی جائے تو مومن کی روح بیدار ہو جاتی ہے تو کہیں عشق و عاشقی کا دور دوراں ہو تو محبوب کی یاد آنکھوں سے آنسو بن کر جھلکنے لگتی ہے۔

ایسے ہی پاکستان اور دنیا بھر میں مشہور 3 قوال نصرت فتح علی خان، عزیز میاں اور امجد صابری تھے جن کی آواز اور انتہائی سادگی کی زندگی نے لوگوں کو خوب اپنا گرویدہ بنایا، یہ ایسی شخصیات پاکستان کی تاریخ میں گزری ہیں جن کا جب بھی ذکر ہوتا ہے آنکھوں میں لہو بن کر اترتا ہے۔ پھر بات اگر امجد صابری کے قتل کی ہو تو ہر آنکھ عشکبار ہو جاتی ہے۔ آج ہم آپ کو ان تین قوال کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں جن کا ایک اپنا عالمی مقام ہے۔ جانیئے ان کی موت کیسے ہوئی اور آخری وقتوں میں یہ کس حال میں تھے؟

٭ امجد صابری:

امجد صابری کا نام تو ان کے قتل کے بعد بھی ہر زباں پر جاری رہا اور آج بھی ہے اور ان کی زندگی میں بھی لوگوں نے ان کو بہت پسند کیا، جہاں بھر دو جھولی میری یا محمد کی صدا ماجد صابری کی زباں سے آتی وہیں کروڑوں لوگ دل تھام کر آنکھیں بند کرکے اس کلام کو سنتے، جب صدا بلند ہوتی علی کے ساتھ ہے زہرہ کی شادی وہاں لاکھوں خواتین کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔ امجد صابری کو 16 رمضان 22 جون 2016 کو نامعلمو افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا، انہوں نے آخری وقتوں میں ان ظالم افراد سے صرف اتنا جملا کہا تھا، مجھے نہ مارو، میرے بچے بہت چھوٹے ہیں۔ آج بھی امجد صابری کے یہ آخری الفاظ رُلا جاتے ہیں۔ اب ان کا بڑا بیٹا مجدد صابری باپ کی جگہ اسی انداز سے قوالی پڑھتا ہے۔

٭ نصرت فتح علی خان:

نصرت فتح علی خان کی شخصیت جن کو دنیا کے کم و بیش ہر خطے میں سنا گیا ، ان کی ایک آواز پر کروڑوں لوگوں کے دل جھوم جاتے تھے، اج بھی ان کے کلام کو بہت عزت و تکریم سے سنا جاتا ہے۔ نصرت فتح علی خان 16 اگست 1997 میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے، ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی اور اپنی زندگی کے آخری 15 دن تو یہ شدید تکلیف میں مبتلا رہے۔ آج ان کے بھتیجے راحت فتح علی خان بھی لوگوں کے دلوں میں خوب بنا چکے ہیں۔

٭ عزیز میاں:

عزیز میاں بھی قوالی کی دنیا میں ایک بہت بڑا نام تھا اور آج بھی ان کے کلام کو لوگ اسی جوش و خروش سے سنتے ہیں۔ ان کا انتقال ایران کے شہر تہران میں 6 دسمبر 2000 میں ہوا۔ ان کے انتقال کی وجہ ہیپاٹائٹس کی پیچیدگیاں بنیں، جن کا انہوں نے کئی سالوں تک علاج کروایا مگر جانبر نہ ہوسکے۔ ان کے مشہور کلام میں یہ ہے مئے کدہ یہاں رند ہے، اللہ ہی جانے کون بشر ہے، نبی نبی یا نبی نبی شامل ہیں۔

آپ کو کون سا قوال سب سے زیادہ پسند ہے؟ ہمیں ہماری ویب کے فیس بک پیج پر کمنٹ سیکشن میں لازمی بتائیے گا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More