والدین سکون میں اس وقت ہی رہتے ہیں جب ان کے بچے خوشحال اور صحتمند رہیں، لیکن اگر بچوں کو کوئی بھی بیماری ہو جائے تو والدین کی تکلیف ان سے بڑھ کر کوئی سمجھ نہیں سکتا، بالکل ایسی ہی ایک والدہ کی کہانی کل سے سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جوکہ آمنہ آفتاب ہیں اور پاکستان کی مشہور فیشن ڈیزائنر بھی ہیں۔
آمنہ اپنے انٹرویو میں بتاتی ہیں کہ:
''
میرے دونوں بچے پچھلے 15 سالوں سے سیریبلر اٹیکسیا نامی بیماری میں مبتلا ہں، جس میں نہ وہ چل سکتے ہیں، نہ بول سکتے ہیں اور نہ کسی چیز کو اپنے ہاتھ سے اٹھا سکتے ہیں، اس بیماری میں انسان لیٹ بھی نہیں پاتا، یہ دماغی اعصابی بیماری ہے جس سے انسان مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے اور پاکستان میں اس مرض کا علاج ممکن نہیں ہے۔ میرے بچے دن رات تکلیف میں مبتلا ہیں ان کو دیکھ دیکھ کر میں بس اپنے خدا سے یہی دعا کرتی ہوں کہ جب میں مروں تو اس سے پہلے میرے بچے مر جائیں، کیونکہ کوئی ایسا نہیں ہے جو میرے بچوں کو سنبھال سکے، ان کو میری طرح پالے، ان کی دیکھ بھال کرے۔
''
میرے گھر والے، میرے عزیز مجھے کسی شادی اور برتھ ڈے پارٹیوں میں نہیں بلاتے وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہائے آمنہ آئے گی تو ا سکے ساتھ اس کے وہ بچے بھی آئیں گے، بیچارے بچے جن سے کچھ نہیں ہوسکتا، میں ان سب سے یہی کہتی ہوں میرے بچوں کو معذور نہ کہو، بیچارہ نہ کہو میں ان پر کام کر رہی ہوں، میں دن رات اپنے بچوں کے غم میں مبتلا ہوں۔
میں نے اپنے بچوں کو ہر ڈاکٹر کو دکھایا سب سے مجھے یہی کہا کہ یہ ٹھیک نہیں ہوسکتے، بحیثیت ایک ماں میں ہر ڈاکٹر سے لڑ کر آ جاتی ہوں کہ وہ میرے بچوں کو ایسا کیوں کہتے ہیں؟ اس لئے میں سعودی عرب کے کنگ عبداللہ ہسپتال میں بھی اپنے بچوں کو لے کر گئی ، وہاں انہوں نے میرے بچوں کو کیس سٹڈی بنایا اور ان پر کام کیا اب 15 سال بعد میرے بچے اس قابل ہوئے ہیں کہ خود سے چل سکتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ کھانا کھا سکتے ہیں اپنے ہاتھوں سے۔
میرے بیٹے نے جب ڈیڑھ سال کی عمر میں پیروں سے چلنا شروع کیا تھا اس کے تھوڑے ہی دنوں کے بعد وہ اچانک زمین پر لیٹ لیٹ کر حرکت کرنے لگا، میرآ دل ڈر گیا اور پھر کئی سالوں بعد معلوم ہوا کہ بچے کو اتنی خطرناک بیماری ہے اور پھر کچھ وقت بعد میری بیٹی میں بھی یہی ساری علامات ہوئیں اور وہ بھی اسی بیماری میں مبتلا ہوگئی تھی، اس دن سے آج تک میں ایک رات بھی سکون سے نہیں سوئی ہوں۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو۔