لوگ ڈرتے ہیں پتہ نہیں رکشہ کیسے چلائے گی ۔۔۔ مگر یہ عورت رکشہ کیوں چلاتی ہے؟ ایک با ہمت عورت کی ایسی کہانی جو معاشرے میں اپنی مثال آپ بنی

ہماری ویب  |  Mar 08, 2021

آج بروز 8 مارچ دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے اور اسی دن کی مناسبت سے ملک بھر میں مختلف تقاریری پروگراموں اور ٹیلیوژن پر خواتین کے حقوق کو اجاگر کیا جاتا ہے۔

پاکستان سمیت بھارت اور دیگر ایشائی ممالک بالخصوص یورپی ممالک میں خواتین کی عزت اور احترام کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور انہیں ان کے حقوق فراہم کیے جاتے ہیں۔ لیکن وہیں غربت اور مختلف گھریلو مشکلات سے دو چار خواتین بھی موجود ہیں جو بنیادی حقوق سے محروم ہوچکی ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت بچوں کا پیٹ پال رہی ہیں اور ایسی باہمت خواتین ہر خطے میں پائی جاتی ہیں۔

بالکل ایک ایسی ہی غریب خاتون جو شہرِ لاہور سے تعلق رکھتی ہیں جن کے خاوند نے ان کا ساتھ چھوڑا، تو وہ گھر یلو مسائل سے نمٹنے کیلئے رکشے کی ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھی۔

خواتین کے عالمی دن کے موقع پر بھی لاہور کی اللہ رکھی ناکی خاتون رکشہ ڈرائیور نے جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ معاشرے کی قدامت پسندی کے باوجود اللہ رکھی نے رکشہ ڈرائیور بن کر چار بچوں کی کفالت کرنے کا جراتمندانہ فیصلہ کیا۔

اللہ رکھی پر اعتماد انداز میں سواریوں سے بھاؤ تاؤ کرتی ہے۔ کرایہ طے پا جائے تو منزل تک پہنچاتی ہے۔ اس کا رکشہ چلانے کا انداز بھی ماہر ڈرائیور جیسا ہے۔

باہمت خاتون کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ ڈر جاتے ہیں کہ عورت ہے پتہ نہیں کیسے چلائے گی، لیکن جب بیٹھتے ہیں تو انہیں ڈر نہیں لگتا۔

اللہ رکھی کے بچوں کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ نے سماجی رکاوٹوں سے ڈر کر ہاتھ پھیلانے کے بجائے عظمت کی مثال قائم کی۔

اس کی بیٹی کا کہنا تھا کہ مجھے فخر ہے کہ ہماری ماں ہمارے لیے دن رات محنت کرتی ہے ہم بھی بڑے ہو کر امی کی خدمت کریں گے۔

اللہ رکھی کو ڈرائیونگ سیت پر دیکھ کر خواتین سواریوں کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ انٹرویو میں بات کرتے ہوئے ایک خاتون مسافر کا کہنا تھاہمیں فخر ہے کہ ہماری طرح ہی یہ بہن محنت کر رہی ہے۔ خاتون ڈرائیورہو تو ہمیں دوران سفر ڈر بھی نہیں لگتا۔

48 سالہ اللہ رکھی کا ایک ہی خواب ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بہتر تعلیم سے ہمکنار کرے۔ اللہ رکھی بلاشبہ عزم و ہمت کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے جس نے یہ ثابت کیا کہ زور بازو پر اعتماد ہو تو خواتین بھی کسی سے کم نہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More