“میری شادی کب ہوگی؟“ “ میں ملک سے باہر کب جاسکوں گا؟“ یا پھر “ پچاس روپے دی کر اس طوطے سے فال نکلوائیں اور اپنا مستقبل جانیں “ گھر سے باہر نکلتے ہی یہ یا پھر اسی طرح کے جملے ہمیں ہر دوسری دیوار پر لکھے ملتے ہیں اس کے علاوہ اخبارات میں یا سوشل میڈیا پر بھی “ آج کا دن کیسے گزرے گا“ ، “ ستارے کیا کہتے ہیں“ کے نام سے بہت سے آرٹیکلز روزانہ دیکھنے کو ملتے ہیں جو لوگوں کی توجہ بھی کھینچتے ہیں۔
ستاروں کا علم جسے انگریزی میں ایسٹرولوجی اور اردو میں علم نجوم کہا جاتا ہے اس علم کے مطابق دنیا میں آنیوالا ہر شخص کسی نہ کسی مخصوص سیارے سے منسلک ہوتا ہے اور اس سیارے کی حرکات و سکنات انسان کی زندگی پر بڑی حد تک اثر ڈالتی ہیں۔ نیچے ہم اسی موضوع پر بات کریں گے اور جانیں گ کہ کیا واقعی علمِ نجوم میں کوئی سچائی پوشیدہ ہے؟
سائنس کیا کہتی ہے؟
کسی علم کی صداقت کے بارے میں جاننے کے لیے سائنس کے زاویے سے پرکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس کے بعد ہی ہم کسی علم کے سچے یا جھوٹے ہونے کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ علمِ نجوم کے بارے میں سائنس کا کہنا کے اس میں کسی قسم کی کوئی سچائ نہیں ۔ مختلف تجربے، مشاہدے اور غلط ثابت ہوئی پیشن گوئیوں کے سبب علم نجوم پر بھروسہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں رہ جاتی۔
مذہبی نقطہ نگاہ
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ صاف الفاظ میں فرماتے ہیں کہ ماں کی کوکھ میں کیا ہے یہ سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں جانتا۔ اس کے علاوہ مختلف احادیث میں قسمت کا حال بتانے اوالوں کو شیطانی عمل کرنے والا اور سخت گمراہ قرار دیا گیا ہے ۔ اسلام ہی نہیں بلکہ یہودیت اور عیسائیت میں بھی علمِ نجوم کو برا کہا گیا ہے ۔
غور کرنے والی بات ہے کہ انسانی قسمت کا اندازہ سیاروں اور ستاروں کی چال سے کس طرح لگایا جاسکتا ہے جو کہ خود رب تعالیٰ کے حکم سے پیدا کیے گئے ہیں ۔ انسان کی اوسط عمر ستر ،اسّی سال ہوتی ہے جب کے سیارے لاکھوں کروڑوں سال سے موجود ہیں ۔ الغرض انسان اور ستاروں یا سیاروں کے درمیان کسی ایسے تعلق کو ماننے سے عقل انکار کرتی ہے۔ علمِ نجوم پر یقین کرنے والے افراد کو اپنے پیسے ستاروں کی چال معلوم کرواکر ضائع کرنے سے پہلے تھوڑا دماغ پر زور ڈالنا چاہئیے کہ وہ کیوں اور کس بنیاد پر اس علم پر یقین کرتے ہیں۔