“بہن بھائی گھر کی تقریبات میں نظر انداز کرتے ہیں تو بہت دکھ ہوتا ہے“ یہ کہنا ہے پاکستان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواجہ سرا جنت علی کا جو کہ صرف اپنی خواجہ سرا برادری کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں۔
جنت کی کہانی
جنت کی زندگی کی کہانی جدوجہد سے بھرپور ہے۔ ایک نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے انھیں اپنی جنس اور فطری خواہشات کو بھولنا پڑا اور اپنی شناخت چھپا کر جینا پڑا۔ گھر میں بہن بھائیوں سے بڑا ہونے کی وجہ سے ان پر کمانے اور چھوٹے بہن بھائیوں کو دلانے کی زمے داری بھی تھی جسے انھوں نے بخوبی انجام دیا۔ لیکن پھر بھی جب گھر والوں کے اپنی اصل شناخت بتانے کا وقت آیا تو ان کو یہ ڈر تھا کہ آیا انھیں اب اس گھر میں رہنے بھی دیا جائے گا یا نہیں ۔ اپنی زندگی کے خوبصورت لمحے کے بارے میں بات کرتے ہوئے جنت نے بتایا کہ جس وقت ان کو گولڈ میڈل ملا وہ لمحہ ان کی زندگی کا خوبصورت اور یادگار لمحہ تھا کیونکہ ان کا خواب پورا ہوگیا تھا۔
جنت علی کے خواب :
جنت علی جو کہ ایم بی اے میں ڈبل اسپیشلائزڈ ہیں ۔اس کے علاوہ وہ گولڈ میڈل بھی حاصل کر چکی ہیں اور لیکن اب وہ اپنا تعلیمی سلسلہ مزید آگے بڑھاتے ہوئے پی ایچ ڈی کر کے دنیا کی سب سے پڑھی لکھی خواجہ سرا بننا چاہتی ہیں۔ جنت کا تعلق لاہور سے ہے ۔
2018 میں جنت علی اور چند اور لوگوں کی کاوشوں کے سبب پاکستان کے خواجہ سراؤں کے لئے ایک بل پاس گیا تھا جو اب قانون کی حیثیت رکھتا ہے، ۔ اسی سلسلے میں 2020 میں ان کو خواجہ سرا برادری کو حقوق دلوانے کی مہم چلانے پر ساؤتھ ایشیا کے “ہیرو“ ایوراڈز کے لئے بھی نامزد کیا جاچکا ہے۔۔ وہ ایک پراجیکٹ مینیجر کے ساتھ ساتھ ورلڈ اکانامک فورم کی ممبر بھی ہیں۔
زندگی کی کٹھنائیوں کا سامنا
خواجہ سرا ہونے کی وجہ سے ان کا کہنا ہے کہ لوگ ان کی تمام تر قابلیت کے باوجود وہ رتبہ نہیں دیتے جس کی وہ حقدار ہیں۔ جب جب گھر والوں کو ان کی ضرورت پڑی انھوں نے ساتھ دیا لیکن جب ان کو گھر والوں کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے تو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی تعلیم حاصل کرنے اور عزت سے روزگار کمانے نے جہاں ان کو دنیا میں منوایا ہے وہیں اب خاندان والوں نے بھی قبول کرنا شروع کردیا ہے۔ اور چونکہ وہ ایک کتھک ڈانسر اور گرو بھی ہیں تو اپنے چیلوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ خواجہ سرا ہونے سے ہماری صلاحیتوں میں کمی نہیں آتی اگر گھر والے اور معاشرہ ہمیں قبول کرے اور ہم سے تعاون کرے تو ہم پارلیمنٹ میں بھی بیٹھ سکتے ہیں، وزیرِ اعظم بھی بن سکتے ہیں
.