آج ہم آپ کو ہندوستان کی تاریخ کے اس عظیم مسلمان شہنشاہ کے بارے میں بتائیں گے جس نے ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی نہ صرف بنیاد رکھی بلکہ اپنی چھوڑی گئی شاندار وراثت کے سبب آج بھی لوگ اس شہنشہاہ کو ایک عظیم بادشاہ کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ جی ہاں بات ہورہی ہے ظہیر الدین بابر کی جس کی رگوں میں چنگیز خان اور امیر تیمور جیسے جنگجو حکمرانوں کا خون دوڑ رہا تھا۔
ایک شہنشاہ کا جدودجہد بھرا بچپن:
ظہیر الدین بابر نے 14 فروری سن 1483 میں وادی فرغانہ میں جنم لیا جو کہ موجودہ دور میں ازبکستان کا حصہ ہے۔ 12 سال کی عمر میں ہی بابر کو اپنے باپ سے وادی فرغانہ کی حکمرانی ملی البتہ اپنے چچا اور چچا زاد بھائیوں کی سازشوں کی وجہ سے بہت تھوڑے ہی عرصے میں بابر کو وادی فرغانہ کی حکمرانی سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اپنی ریاست سے جلاوطن کردیے جانے کے بعد نو عمر بابر کو کافی عرصہ بے یارو مددگار اور بغیر کسی چھت کے بھی رہنا پڑا اس کے باوجود اس با حوصلہ شہنشاہ نے حالات سے تھک کر ہار ماننے کے بجائے وادی فرغانہ اور ثمرقندکو حاصل کرنے کی ٹھانی مگر کامیاب نہ ہوسکا۔ 1501 میں ثمرقند سے ناکام لوٹنے کے بعد اگلے تین سال تک بابر اپنی فوج کو مضبوط کرنے میں مشغول رہا اور آخرکار 1504 میں کوہ ہندوکش عبور کرنے کے بعد بابر اور اس کا لشکر افغانستان فتح کرنے میں کامیاب ٹہرے۔

اگرچہ افغانستان میں بادشاہ کا تخت حاصل کرنا بہت بڑی کامیابی تھی لیکن اس کے باوجود ظہیر الدین بابر، ثمرقند کی حکمرانی کا خیال دل سے نہیں نکال سکا اور آخرکار 1513 میں بابر نے ثمر قند حاصل کرنے کی نئے سرے سے کوشش شروع کردی اور پھر اسے حاصل کر کے ہی دم لیا۔ البتہ یہ ایک وقتی کامیابی ثابت ہوئی اور ٹھیک ایک سال بعد بابر کو دوبارہ ثمر قند سے جلا وطن کردیا گیا۔ اس ناکامی کے بعد بابر نے اپنی تمام تر توجہ ہندوستان پر فتح کے جھنڈے گاڑنے پر مرکوز کردی ۔
پانی پت کی جنگ اور ہندوستان مغل بادشاہت کا آغاز:
یوں تو بابر کی پوری زندگی جنگیں لڑتے اور جیتتے ہوئے گزری البتہ پانی پت کی جنگ ہندوستان میں بابر کی بادشاہت کا آغاز تھی ۔ اس جنگ کی کہانی کچھ یوں ہے کہ 1524 میں پنجاب کے گورنر نے اپنے بھائی ابراہیم لودھی کے خلاف بابر سے مدد مانگی جو کہ آگرہ اور شمالی ہندوستان پر حکمرانی کرتا تھا۔ بابر جو پہلے چار بار ہندوستان پر حملہ کر کے ناکام ہو چکا تھا اس نے اب پانچویں بار جنگ کی تیاری شروع کردی۔ جنگ کے لئے سفر شروع ہوا اور دوران سفر جب فوجیوں کی تعداد گنی گئی تو بابر کی فوج میں 12،000 فوجی شامل تھے جبکہ بابر کے مقابلے میں ابراہیم لودھی کے پاس 1 لاکھ فوجیوں کے علاوہ 1000 ہاتھیوں کا بھاری بھرکم لشکر تھا۔ پانی پت کی جنگ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ بابر نے اس جنگ میں توپوں کا استعمال کیا جو اس سے پہلے ہندوستان میں پہلے کسی نے نہیں دیکھی تھیں اور یہی وجہ ہے کہ اپنی کامیاب حکمت عملی اور توپوں کے استعمال سے ظہیر الدین بابر نے ابراہیم لودھی کے بھاری بھرکم لشکر کو ناقابلِ فراموش شکست دی۔ میدان جنگ میں ابراہیم لودھی کے ہاتھیوں اور فوج کو توپوں سے جواب دیا گیا جس کے نتیجے میں ہاتھی گھبرا کر اپنے ہی فوجیوں کو کچلتے ہوئے بھاگ گئے آخرکار ابراہیم لودھی اس جنگ میں مارا گیا اور یوں بابر نے پانی پت کا میدان فتح کرکے ہندوستان میں مغل حکومت قائم کر لی۔ بعد ازاں پانی پت میں شکرانے کے طور پر بابر نے ایک خوبصورت باغ بنوایا اور اسی باغ میں ایک شاندار مسجد "بابری مسجد" تعمیر کروائی جو بعد میں "کابلی مسجد" کے نام سے مشہور ہوئی۔ ابراہیم لودھی کو پانی پت میں ہی دفن کیا گیا جس کی قبر آج بھی موجود ہے۔ اگرچہ بابر اب ایک وسیع وعریض سلطنت کا بادشاہ تھا جس کی ریاست ہندوستان اور موجودہ افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی لیکن اس سب کے باوجود بابر کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی تھیں۔ میہواڑ میں راجپوتوں کا حکمران رانا سانگا جس نے ہندوستان میں حملہ کرنے سے قبل بابر کو پانی پت کے میدان میں اس کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کروائی تھی لیکن عین موقع پر اپنی زبان سے پھر کر اس نے جنگ میں شہنشاہ بابر کی کوئی مدد نہیں کی اور اب وہ بابر کی شاندار کامیابی سے حسد کرنے لگا تھا۔
رانا سانگا نے بابر کو ہندوستان کے حکمران کے طور پر قبول کرنے کے بجائے آس پاس کے راجپوت راجاؤں اور ابراہیم لودھی کے بچے کچے وفاداروں کے ساتھ مل کر بابر کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ دوسری طرف شہنشاہ بابر نے بھی اس اعلان جنگ جو قبول کرتے ہوئے اپنی فوج کو مزید توپیں بنانے کا حکم دے دیا۔ اس جنگ میں بابر کو ایسی توپ بنا کر پیش کی گئی جو 600 فٹ دور تک گولہ پھینک سکتی تھی۔ میدان جنگ میں بابر پچاس توپوں اور بھاری فوج کے ساتھ رانا سانگا کے سامنے راجستھان کے علاقے خانواہ کے میدان میں موجود تھا۔ اس جنگ میں بھی بابر نے اپنی مضبوط حکمت عملی سے میدان مار لیا اور زخم خوردہ رانا سانگا نہتا ہو کر میہواڑ واپس لوٹ گیا۔ اب بابر شہنشاہِ ہندوستان کے طور پر حکومت کرنے کے لیے بالکل آزاد تھا لیکن اس جنگ کے دو سال بعد ہی ظہیر الدین بابر شدید بیمار ہوکر 1530 میں محض 47 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے اور اس طرح ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا پہلا سورج غروب ہوگیا۔
بابری مسجد :
یوں تو ظہیر الدین بابر اب اس دنیا میں نہیں رہا تھا لیکن اس کی باقی رہ جانے والی عظیم الشان وراثت آج بھی دنیا میں اس کے تاریخی دور کی ترجمانی کر رہی ہے۔ شہنشاہ بابر کی بنوائی گئی عمارتوں میں سب سے زیادہ شہرت "بابری مسجد" کو حاصل ہوئی جو کہ 1528 میں ایودھیہ کے مقام پر تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کو تعمیر کے دوران حتیٰ کہ بابر کے مرنے کے تین صدیاں گزرنے کے بعد بھی کسی قسم کے تنازعہ کا سامنا نہیں ہوا البتہ اٹھارہویں صدی میں اچانک چند ہندوؤں نے یہ دعویٰ کیا کہ بابری مسجد، رام مندر کے ملبے پر قائم ہے نہ صرف یہ بلکہ ہندووں کے دیوتا شری رام کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے بابری مسجد کہ زمین ہندووں کے لئے مقدس ہے لہذا انھوں نے مطالبہ کیا کہ اس جگہ مسجد کے بجائے رام مندر ازسر نو تعمیر کیا جائے۔ یہ معاملہ طول پکڑتا گیا اور بالآخر 1992 میں انتہا پسند ہندووں نے بابری مسجد کو شہید کردیا۔ ہندو مسلم کی اس لڑائی میں تقریباً دو ہزار لوگ مارے گئے یہاں تک کے 2019 میں بھارت کی سپریم کورٹ نے فیصلہ ہندوؤں کے حق میں دیتے ہوئے بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا عندیہ دے دیا۔ اور اس طرح تاریخ کی کتاب سے بابر کی وراثت کا ایک مقدس اور خوبصورت صفحہ تعصب کی نذر کردیا گیا۔

بابر ایک ہیرو:
ظہیر الدین بابر ایک شاعر بھی تھے اس کے علاوہ بابر نے اپنی سوانح عمری "بابرنامہ" ترک زبان میں تحریر کی جسے بعد میں مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ بابر نے کئی شادیاں کیں جن سے تقریباً بیس اولادیں ہوئیں البتہ بابر کا سب سے چہیتا اور لاڈلہ ہونے کا اعزاز ان کے بیٹے "ہمایوں" کو حاصل تھا اور آگے جا کے ہمایوں ہی بابر کا اصل جانشین بن کے سامنے آیا۔ ہندوستان کے پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کو اس کی وصیت کے مطابق موت کے بعد کابل میں باغ بابر میں دفن کیا گیا۔ عظیم جنگجو بابر کو اس کی جرات مندانہ طبعیت اور ذہانت کی وجہ سے ازبکستان میں آج بھی قومی ہیرو کے طور پر جانا جاتا ہے