ویسے تو پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے لیکن جب بات ہوتی ہے شادیوں کی تو خواہ کوئی کتنا ہی غریب ہو لیکن اپنی بساط سے بڑھ کر ہی دھوم دھام سے شادی کی تقریبات منعقد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور لوگوں کی اس روش کی وجہ سے ہی شادی بیاہ میں ہونے والا اسراف کسی طرح کم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ غریب ہو یا امیر شادی میں ہر کوئی لاکھوں کروڑوں صرف مہندی اور ڈھولکی پر خرچ کرنا لازمی خیال کرتا ہے۔ اس کے باوجود بھی شادی میں آنیوالا ہر مہمان یہی سوال کرتا ہے ارے بیٹی کو جہیز میں کیا دیا یا پھر “ کھانے میں کیا رکھا ہے“ دوسری طرف دلہن کے گھر والے بھی لڑکی سے منہ دکھائی اور سسرال میں ملنے والے تحفوں کی بابت دریافت کرتے ہیں۔
آخر ان رسمومات کا آغاز ہوا کہاں سے؟
شادی بیاہ کی فضول رسومات کا تعلق دراصل ہندوستانی کلچر سے ہے ۔ بھارت کا بغور جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مایوں، مہندی اور ابٹن جیسی رسومات ان کی روایت اور کلچر کا حصہ ہیں جو کہ عرصے تک ساتھ رہنے کی وجہ سے ہمارے ہاں بھی سرائیت کر چکی ہیں۔
یہ رسومات غیر ضروری کیوں ہیں؟
مہندی ، مایوں کی تقریبات میں صرف وقت اور پیسے کا زیاں ہوتا ہے جب کہ ان رسومات کا حاصل کچھ نہیں ۔ پورے معاشرے کی جانب سے ان رسومات کو لازمی اختیار کرنے کی وجہ سے غریب آدمی بھی مجبوری میں ہی سہی لیکن اس دوڑ میں شامل ہوجاتا ہے اور نکاح میں سادگی اختیار کرنے کے بجائے اپنی خون پسینے کی کمائی کو خود اپنے ہاتھوں سے آگ لگا لیتا ہے۔
ان رسومات سے چھٹکارا کیسے حاصل کیا جائے؟
ہمارے مذہب اسلام میں پہلے ہی تمام غیر ضروری اور فضول رسم و رواج کا قلع قمع کیا جاچکا ہے اور شادی میں صرف نکاح جیسا سادہ عملہی ضروری قرار دیا گیا ہے اس کے علاوہ ولیمے کی تقریب بھی سنت ہے البتہ اس میں نہ ہی مہمانوں کی تعداد کی حد مقرر کی گئی ہے اور نہ ہی قوام و طعام کے لئے لوازمات مخصوص کئے گئے ہیں ۔ اس لئے سادگی سے نکاح اور سادگی سے ولیمے کی سنت پر عمل کر کے تمام روایتی فضول رسموں کا گلا گھونٹا جاسکتا ہے جنھوں نے ہمارے معاشرے میں لازمی صورت اختیار کر کے زندگیوں کو مشکل بنیا ہوا ہے۔