کہتے ہیں کہ اگر محنت کی جائے تو ہر کام ممکن ہو سکتا ہے پھر چاہے وہ مشکل اور ناممکن ہی کیوں نا ہو۔ آج ہم آپ کو ایک ایسے جوڑے کی کہانی بتانے جا رہے ہیں جنہوں نے سخت محنت اور لگن سے اپنا بزنس سیٹ کیا اور لوگوں کے لیے مثال قائم کر دی۔
سدرہ قاسم جن کا تعلق پاکستان کے شہر اوکاڑہ سے ہے، ان کی اپنے شوہر وقاص علی سے پہلی ملاقات اپنی آنٹی کے گھر ہوئی، وقاص سدرہ کی آنٹی کے گھر پڑھنے آیا کرتے تھے۔
سدرہ کو وقاص شروع سے ہی کافی زیادہ پسند تھا کیونکہ سدرہ کے مطابق ان دونوں کی ذہنیت آپس میں کافی زیادہ مماثلت رکھتی تھی، وقاص اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور جانے لگا، اس وقت اس نے سدرہ کو پیشکش کی کہ کیا وہ اس کی بزنس پارٹنر بنے گی؟
سدرہ نے جب یہ بات اپنے گھر والوں کو بتائی تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔
انکار سننے کے بعد سدرہ کافی زیادہ افسردہ ہو گئیں یہاں تک کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت کمرے میں تنہا گزارنے لگیں، سدرہ کی اس حالت نے ان کے والدین کو ایک مرتبہ پھر سوچنے پر مجبور کر دیا، بعدازاں وہ دونوں اس بات پر راضی ہو گئے کہ سدرہ وقاص کے ساتھ لاہور میں جا کر کام کر سکتی ہے۔ لاہور میں انہوں نے وقاص کے ساتھ ’سوشل میڈیا آرٹ‘ نامی کمپنی میں کام کرنا شروع کیا جس کا مقصد برانڈز کو سوشل میڈیا کی سطح پر ابھارنا تھا۔
تاہم کام کے دوران دونوں کے درمیان اچھے روابط قائم ہوئے۔
سدرہ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ہم نے کبھی بھی اپنے تعلقات کے حوالے سے ایک دوسرے سے بات نہیں کی تھی، لیکن ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اچھا محسوس کرتے تھے۔
لیکن ان کی زندگی اور کام کو اس وقت ایک نیا رخ ملا جب ان کی ملاقات اوکاڑہ کے مقامی ولیج کونسل میں کاریگروں کے ایک گروپ سے ہوئی۔ وہ لوگ دو کمروں پر مشتمل ایک ورک شاپ میں لیدر کے جوتے بنانے کا کام کر رہے تھے۔
سدرہ نے اس ورک شاپ کا چکر روز لگانا شروع کیا تاکہ وہ ان کاریگروں کو اس بات کے لیے منا لے کہ وہ ان دونوں کے ساتھ مل کر کام کریں، اور بالآخر وہ لوگ مان گئے۔
جہاں سدرہ یہ کام کر رہی تھی وہیں وقاص ویب سائٹ سنبھال رہا تھا، سدرہ کی یہ کوشش تھی کہ جو جوتے یہ لوگ بنائیں وہ بہترین معیار کے ہوں۔
سدرا نے کہا کہ ہم نے اپنے جوتوں کی کلیکشن کو Hometown Shoes کا نام دیا، اور جب ہم نے اپنی ویب سائٹ کو لانچ کیا تو پہلا آرڈر اسی وقت فرانس سے آگیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ شپنگ کی قیمتیں بے انتہا زیادہ ہونے کے باعث ہم نے اپنے اس آرڈر میں نقصان اٹھایا لیکن نہ ہمت ہاری اور نہ ہی امید چھوڑی۔
انہوں نے بتایا کہ تقریباً ایک سال بعد ہم ایک ماہ میں 50 جوتے فروخت کر دیا کرتے تھے، ہم اپنے اس بزنس سے خوش تھے۔
بزنس کے دوران ہی دونوں کی شادی ایک سادہ سی تقریب میں ہوئی، کیونکہ شادی کے فوراً بعد انہیں سان فرانسسکو میں Y- کمبینیٹر ایکسلریٹر پروگرام کے لیے جمع کرائی گئی درخواست پر کام کرنا تھا۔
تاہم اس پروگرام میں کامیاب ہونے کا معیار ہارورڈ یونیورسٹی سے بھی زیادہ سخت تھا، انہوں نے بتایا کہ ان کا انٹرویو سخت ناکام ہوا لیکن انہوں نے پھر بھی ہمت نا ہاری اور امریکہ چلی گئیں۔
Y- کمبینیٹر میں ان کا اس وقت غلطیاں کرنا اچھا ثابت ہوا، کیونکہ انہوں نے اس سے بہت کچھ سیکھا۔
سدرہ نے بتایا کہ "ہمارے گروپ میں ہماری کمپنی واحد تھی جنھوں نے رقم اکٹھا نہیں کی جس سے معاملات مزید خراب ہو گئے۔
تاہم ایک ایونٹ منعقد کیا گیا جس میں ہمیں اپنی پراڈکٹ کا ڈیمو دینا تھا۔ ہماری کلاس کے تمام افراد کافی ڈریس اپ تھے لیکن ان میں سے کسی نے وہ جوتے نہیں پہنے تھے جو ہم نے انہیں بیچے تھے۔
ہم نے پھر ریسرچ شروع کی کہ ایسا کیوں ہے، لوگوں کی دلچسپی زیادہ تر جن جوتوں کی طرف ہے؟ پہلے جو جوتے ہم بنا رہے تھے وہ فارمل وئیر تھے جبکہ اب ہم نے کیژوئل وئیر بنانا شروع کیے۔
کیونکہ زیادہ تر افراد وہ جوتے پہننا پسند کرتے ہیں جو روزمرہ پہن سکیں۔
تاہم وقت اور محنت کے ساتھ ساتھ ان کا بزنس پروان چڑھنے لگا اور انہوں نے ڈھیروں کامیابیاں سمیٹیں۔
٭ اس حوالے سے اپنی قیمتی رائے کا اظہار کریں، ہماری ویب کے فیسبک پیج پر کمنٹ کریں۔