ہم سندھ کو 1000 بس دیں گے اور ۔۔۔ سندھ گورنمنٹ کے بڑے بڑے وعدوں کے بعد بھی کراچی آج تک پبلک ٹرانسپورٹ سے محروم کیوں؟

ہماری ویب  |  Feb 02, 2021

کیا آپ کو دفتر کے لئے بس آسانی سے مل جاتی ہے؟ کیا آپ کے بچے اسکول ، کالچ جانے کے لئے پرائیوٹ گاڑیوں کے محتاج ہیں؟ کیا آپ کی آدھی سے زیادہ تنخواہ رکشے، ٹیکسیوں کے کرائے ادا کرتی گزر جاتی ہے؟

اگر آپ کراچی کے شہری ہیں تو یقیناِ آپ کا جواب ہاں میں ہوگا۔ کیونکہ نااہل سیاستدانوں کی بدولت پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے دھکے کھانے کا مسئلہ کراچی کے بدنصیب شہریوں کو وراثت میں ملتا ہے۔ اس تحریر میں ہم کراچی کے شہریوں کی نقل و حمل کے مسائل پر بات کریں گے۔

شہر کی آبادی اور پبلک ٹراسپورٹ کی تعداد:

٢٠٢٠ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت کراچی کی آبادی سولہ ملین سے زائد ہے جبکہ ایک غیر سرکاری اندازے کے مطابق شہر کی آبادی تقریبا بیس ملین ہے۔البتہ اس بھاری آبادی، اور ملک میں سب سے زیادہ آمدنی بنانے شہر میں سستی، سرکاری آمدورفت کے لئے استعمال ہونے والی گاڑیوں کی تعداد صرف چار ہزار کے آس پاس ہے۔ حالانکہ اتنی بڑی آبادی کو آمدورفت کی سہولت فراہم کرنے کے لئے تقریبا پندرہ ہزار سرکاری بسوں کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ بسوں کی تعداد کم ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی حالت بھی انتہائی دگرگوں ہوتی ہے۔ جس میں سفر کرنا شہریوں بالخصوص خواتین اور بچوں کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ بسوں کے علاوہ کبھی شہر کراچی میں ریلوے کا ایک منظم نظام بھی موجود تھا جو کہ اب محکموں کے غیر ذمے دارنہ رویوں کے باعث کچی آبادیوں کا مرکز ہے۔

عوام کیسے سفر کرتے ہیں؟

اس پریشان کن صورتحال سے نمٹنے کے لئے عوام کے پاس کوئی متبادل راستہ نہیں البتہ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لئے وہ نجی بسز، کوچز ، وین سروسز یا رکشہ اور چنگ چی پر ہی تکیہ کرنے پر مجبور ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ اس مہنگی سہولت کا فائدہ اٹھانے کے لئے ان کو اپنی تنخواہ کا آدھا حصہ پرائیوٹ گاڑیوں کے مالکان کو ادا کرنا پڑتا ہے یا پھر بیشتر افراد کسی طرح پیٹ کاٹ کر اپنی ذاتی گاڑی خرید لیتے ہیں جو کہ اس قدیم اور محدود آبادی والے انفرااسٹرکچر پر قائم شہر میں مزید بے ہنگمی کا باعث بنتا ہے۔ نجی گاڑیوں کی بہتات کے سبب سارا وقت کھدی ہوئی ، گڑھے زدہ سڑکوں پر ٹریفک جام رہتا ہے جس کے باعث تمام شہری ہی کوفت کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ گاڑیوں کا دھواں کا ہارن کی آوازیں ماحولیاتی آلودگی بڑھانے کا سبب بنتی ہیں۔

ذمہ دار کون ہے؟

افسوس کی بات یہ ہے کہ جب جب وسائل کی بات ہو وفاقی ، صوبائی اور لوکل گورنمنٹ کے ادارے کراچی پر حق جتاتے نہیں تھکتے البتہ جس حقوق پورے کرنے کی باری آتی ہے تو اس شہر کو لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جہاں تک کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے فقدان کا سوال ہے تو اس سلسلے میں زیادہ زمے داری سندھ حکومت پر عائد ہوتی ہے جو کراچی میں ہی نہیں بلکہ پورے صوبے میں ہی دو دہائیوں سے حکومت کے مزے لوٹ رہی ہے البتہ جب جب زمے داری پوری کرنے کا وقت آتا ہے تو پیپلز پارٹی کے حکمران سارا الزام وفاق پر دھر کے جان چھڑا لیتے ہیں اس بات سے قطع نظر کے صوبے کے ساتھ ساتھ وفاق پر بھی ان کی حکومت کئی بار قائم ہوچکی ہے۔

سندھ حکومت کی نا اہلی :

کیا یہ سندھ حکومت کی نااہلی نہیں کہ ایک ہزار بسیں چلانے کا دعوہ کرنے اور اس ضمن میں چند سال پہلے ڈیوو کمپنی کے ساتھ معاہدہ طے پاجانے کے باوجود فیالحال ایک بھی بس نہیں چلائی جاسکی ہے ؟ نا صرف یہ بلکہ گزشتہ سولہ سالوں میں پبلک بسز کی کوئی بھی اسکیم متعارف نہیں کرائی جاسکی جس کی وجہ صرف اور صرف سندھ حکومت کی غفلت ہے اور جس کا بھگتان کراچی کے مظلوم اور بے بس شہری بھگتنے پر مجبور ہیں۔

توجہ :

بہتر یہی ہوگا کہ سندھ حکومت سیاسی بیان بازی اور مردوں کو زندہ رکھنے کے دعووں کے بجائے زندہ لوگوں کی پریشانیوں پر بھی غور کرے ۔ تھوڑی توجہ اپنی نسل در نسل حکومت پر عیش کرنے کے بجائے ان بد نصیب ، بے حال شہریوں پر بھی دے جن کے ووٹوں کی بنیاد پر ہی سندھ حکومت کی بادشاہت قائم ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More