یوں تو نکاح کے لیے مولوی صاحب کو بلایا جاتا ہے، پہلے لڑکی سے اس کی رضامندی پوچھی جاتی ہے اور پھر مسجد میں لڑکے کا نکاح پڑھا لیا جاتا ہے۔ بہت سے گھرانوں میں نکاح شادی کی تقریب سے پہلے ہی ہو جاتا ہے جبکہ کچھ لوگوں کے گھر شادی ہال میں نکاح ہوتا ہے۔
دونوں صورتوں میں اکثر گھروں میں مولوی ہی دلہنوں سے ان کی رضا مندی لیتے ہیں لیکن آج کل مولویوں کی جگہ لڑکی کا نکاح اس کے قریبی رشتہ دار پڑھا لیتے ہیں۔
ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں، سوشل میڈیا پر آئے دن نکاح سے متعلق نئی نئی کہانیاں زیر گردش رہتی ہیں۔
جوں جوں نیا دور آ رہا ہے، ویسے ویسے روایات بھی تبدیل ہوتی جا رہی ہیں۔
آج اگر ہم نظر دوڑائیں تو کئی لڑکیوں کا نکاح ان کے والد یا بھائی پڑھا رہے ہوتے ہیں، جبکہ کچھ کے تو دوستوں نے بھی ان کا نکاح پڑھایا۔
٭ آپ کا اس حوالے سے کیا خیال ہے؟ کیا نکاح مولوی صاحب کے بجائے کسی قریبی رشتہ دار کو پڑھانا چاہیے؟ اپنی قیمتی رائے کا اظہار ہماری ویب کے فیسبک پیج پر کمنٹ سیکشن میں لازمی کریں۔