ماں ایک ایسی ہستی ہوتی ہے جو اپنے بچوں کی بھلائی کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار رہتی ہے لیکن کبھی کبھی قدرت بچوں کو بھی ایسے امتحان میں ڈال دیتی ہے جہاں انہیں اپنے ماں باپ کے لیے قربانیاں دینی پڑیں۔
آج ہماری ویب اپنے پڑھنے والوں کے لیے ایسی کہانی لائی ہے جس میں ایک بیٹی اپنی ماں کے بارے میں بتا رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل یہ کہانی 'اقراء شہروز' نامی لڑکی اور اس کی والدہ کی ہے۔
وہ لکھتی ہیں کہ:
''میری ماں 16 برس کی تھیں جب ان کی شادی ہوئی، اور شادی بھی اتنی اچانک کہ امی بتاتی ہیں کہ میں کچن میں برتن دھو رہی تھی جب خالہ آئیں اور کہنے لگیں کہ اٹھو اور جاؤ مایوں بیٹھو، تمہاری شادی ہو رہی ہے''۔
اقراء نے بتایا کہ ''میری والدین آپس میں کزن تھے۔ دونوں کی شادی 1969 میں ہوئی، شادی کے دو سال بعد میرا بھائی پیدا ہوا پھر کچھ سال بعد میری دو بہنیں اس دنیا میں آئیں''۔ اقراء کا کہنا تھا کہ ''میں شادی کے کافی عرصے بعد پیدا ہوئی۔ میری پیدائش 1989 میں ہوئی''۔
اقراء نے انکشاف کیا کہ '' جب میری تیسری بہن پیدا ہونے والی تھی تو امی اس بیماری کا شکار ہوگئیں۔ انہیں ایک دماغی مسئلے نے آن گھیرا جسے ہم Obsessive Compulsive Disorder (ایک ہی کام کو بار بار کرنا) کہتے ہیں۔ اس وقت اس بیماری کے حوالے سے معلومات نا ہونے کی بنا پر سب انہیں پاگل کہتے تھے۔ وہ بار بار اپنے ہاتھ اور گھر کو دھویا کرتی تھیں''۔
انہوں نے لکھا کہ ''اس کے برعکس سب کیا سوچتے ہیں، میرے والد نے امی کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا، ان کا ہمیشہ ساتھ دیا یہاں تک کہ وہ سب کو کہتے تھے کہ اگر اسے یہ چیز سکون پہنچا رہی ہے تو اسے یہ کرنے دو''۔
اقراء لکھتی ہیں کہ ''کچھ رشتہ دار اور لوگ ان کی امی کو مختلف مزارات پر لے کر گئے لیکن کہیں سے انہیں فرق نہیں پڑا بلکہ ان کی حالت مزید بگڑتی گئی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ جب ہم باہر سے گھر آتے تھے تو ہمیں ڈائریکٹ اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ امی نے گھر کے داخلی دروازے کے درمیان ایک دیوار بنوا لی تھی، جہاں سے ہمیں چپل اتار کر بغیر اس بارڈر کو ہاتھ لگائے گھر میں داخل ہونا ہوتا تھا''۔
انہوں نے بتایا کہ ''ہمارے گھر میں کسی بھی پلمبر یا چیزیں ٹھیک کرنے والے شخص کو اندر گھسنے کی اجازت نہیں تھی، امہ کا خیال ہوتا کہ نا جانے وہ کہاں سے آ رہے ہوں گے''۔
اقراء کہتی ہیں کہ ''امی ہمارے ساتھ شاپنگ یا ہوٹلوں میں نہیں جا سکتی تھیں، انہیں ہر چیز گندی لگتی تھی اور یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھنا انتہائی تکلیف دہ ہوتا تھا''۔
اقراء نے کہا کہ ''میری امی اب 68 سال کی ہیں، اب بھی وہ اپنے کمرے کی خود صفائی کرتی ہیں اور وہیں رہتی ہیں۔ ان کے کمرے میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں یہاں تک کہ ابو کو بھی نہیں۔ ہم امی سے بات تو کر سکتے ہیں لیکن ان کے بستر پر بیٹھ نہیں سکتے، ان کا فون بھی استعمال نہیں کر سکتے''۔
اقراء نے بتایا کہ ''امی روتی ہیں اور دعا مانگتی ہیں کہ اے اللہ مجھے ٹھیک کر دے۔ لوگ انہیں پسند نہیں کرتے یہاں تک کہ ان سے بات بھی نہیں کرتے۔ ان سب کے باوجود میری امی اپنے بچوں کے لیے ایک بہترین ماں ہیں''۔
بشکریہ سول سسٹرز پاکستان۔
٭ اس اسٹوری کے حوالے سے ہماری ویب کے فیسبک پیج پر لازمی اپنی رائے کا اظہار کریں۔