اردو ادب کی نامور شاعرہ پروین شاکر کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ رومانوی شاعرہ کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے تھا وہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں سول سروسز کا امتحان دینے کے بعد سرکاری ملازمت کر لی۔
پروین شاکر کا انتقال 26 دسمبر 1994 کو ایک ٹریفک حادثے میں ہوا، ان کا صرف ایک بیٹا تھا جس کا نام مراد تھا۔ پروین شاکر کی وفات کے وقت مراد کی عمر محض 15 برس تھی جبکہ وہ او لیول کے طالب علم تھے۔
مراد کہتے ہیں کہ مجھے آج بھی 26 دسمبر کی وہ صبح یاد ہے جب امی ایک حادثے کا شکار ہوئیں اور ہمیشہ کے لئے مجھ سے جدا ہو گئیں۔
انہوں نے بتایا کہ بارش ہو رہی تھی، امی حسب معمول تیار ہو کر آفس چلی گئیں۔ تقریباً ساڑھے نو بجے فون آیا کہ آپ کی امی کو حادثہ پیش آیا ہے آپ پمز آ جائیں۔ پھر میں نے فوراً ہی امی کی قریبی دوست پروین قادر آغا کو فون کیا وہ بھی ہسپتال آ گئیں۔
مراد بتاتے ہیں اس دن بارش ہو رہی تھی اور ٹریفک سگنل کام نہیں کر رہے تھے اور بس نے ان کی کار کو ٹکر مار دی۔ہسپتال پہنچنے پر مجھے بتایا گیا کہ جب انھیں (پروین شاکر کو) لایا گیا تو نبض چل رہی تھی لیکن پھر ان کی وفات کی خبر دی گئی۔
پروین شاکر کے بیٹے مراد کا کہنا تھا کہ وہ کھانے کے معاملے میں بہت نخرہ کرتے تھے لیکن ان کی والدہ ان کی پسند کے کھانے بھی بناتیں۔ امی کے ہاتھ کا مٹر پلاؤ مجھے بہت پسند تھا اور امی رہو مچھلی بنایا کرتی تھی جو مجھے بہت پسند تھی۔
مراد نے بتایا کہ امی مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتی تھیں، وہ ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ تم ڈاکٹر بنو اور وہ بھی نیورو سرجن، جو سخت قسم کی تعلیم ہوتی ہے، تم وہ کرو اور وہ اس پر بہت زور دیتی تھیں۔
مراد کا کہنا تھا کہ خوشی اور تہواروں پر کمی محسوس ہوتی ہے کہ میری امی میرے ساتھ نہیں۔
یاد رہے پرین شاکر کی آج 26ویں برسی منائی جا رہی ہے۔