پاکستان میں موسمِ سرما کا آغاز ہو چکا ہے، نومبر اپنے اختتام کو ہے جبکہ دسمبر کی آمد آمد ہے۔ ملک کے بالائی علاقوں میں شدید برف باری جاری ہے جبکہ محکمہ موسمیات کی جانب سے بھی یہ پیشن گوئی کی گئی ہے کہ رواں سال ملک بھر میں شدید سردی متوقع ہے۔
آج ہم آپ کو خیبرپختونخوا کے علاقے کے کچھ لوگوں کی کہانی بتائیں گے جو بنا موسم کی برف باری میں پھنس گئے۔
صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر کالام سے تقریباً 40 کلو میٹر دور پہاڑوں کے بیچ واقع اس علاقے کا نام 'مہوڈنڈ' ہے۔ یہ علاقہ اپنے اندر بے پناہ خوبصورتی سموئے ہوئے ہے۔ اس علاقے تک رسائی کیلئے جیپ میں دو سے تین گھنٹے لگتے ہیں۔ مہوڈنڈ میں وہاں کی وادیوں کے دیہاتیوں نے جھیل کے آس پاس دکانیں اور ہوٹل کھول رکھے ہیں جہاں زیادہ تر جھیل کی تازہ مچھلی فروخت کی جاتی ہے۔
علاقے کے لوگوں کے مطابق عام طور پر مہوڈنڈ جھیل سیاحوں کے لیے دسمبر کے مہینے تک کھلی رہتی ہے۔ پہلی برف باری ہوتے ہی اس کو سیزن کا اختتام تصور کیا جاتا ہے جبکہ ملازمین ہوٹلوں کو تالہ لگا کر ملازمین اور مالکان گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔
تاہم اس مرتبہ ہوا کچھ یوں کہ علاقے میں معمول کے برعکس نومبر میں برفباری ہو گئی۔ کالام کے شہری 'سوار خان' کہتے ہیں کہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو نومبر میں اس قدر شدید برفباری کی توقع نہ تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ابھی تو نومبر کا دوسرا ہفتہ چل رہا تھا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ برفباری ہوگی اور وہ بھی اتنی شدید۔ عام طور پر دسمبر کے آخر میں ایک یا ڈیڑھ فٹ برفباری ہوتی ہے جو ہمارے لیے ایک اشارہ ہوتا ہے۔ دوبارہ یہ جگہ مئی میں کھلتی ہے۔ جب برف پگھلنا شروع ہوتی ہے'۔
سوار خان نے بتایا کہ 'میں اور میرے کچھ ساتھی اس بے وقت کی برفباری میں پھنس گئے، جب ہم نے دیکھا کہ تمام راستے تقریباً آٹھ فٹ تک برف سے ڈھک گئے ہیں تو یقین ہو گیا کہ اب کوئی معجزہ ہی ہمیں بچا سکتا ہے۔ 'ہمارے پاس آگ جلانے کا انتظام اور کھانے کا تھوڑا بہت سامان تھا لیکن اصل مسئلہ وہاں سے نکلنے کا تھا۔ ہم پانچ لوگ تھے۔ قریبی ہوٹلوں میں جو نو لوگ تھے وہ بھی کسی طرح ہمارے پاس پہنچ گئے اور چوتھے روز جب صبح ہوئی اور برفباری تھم گئی تو ہم نے وہاں سے نکلنے کی ٹھانی'۔
برف میں پھنسے 14 لوگوں کے پاس نہ تو سردی سے بچنے کے لیے گرم کپڑے تھے اور نہ ہی لمبے اور موٹے جوتے۔ سوار خان کا کہنا تھا کہ 'ہوٹل سے نکلنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا، لیکن وہاں رکنے کا مطلب بھی موت کا انتظار کرنا تھا۔ 'مشکل کی اس گھڑی میں مجھے اپنے بزرگوں کی بات یاد آئی کہ اگر کبھی برف میں پھنس جاؤ تو پانی کا راستہ اختیار کرو'۔'
سوار کے مطابق 'وہ اور ان کے ساتھی قریب بہتے ایک دریا کے پاس پہنچے جہاں سے کئی میل کا فاصلہ انہوں نے دریا میں تیر کر طے کیا'۔
انہوں نے کہا 'باقی کا راستہ ہم نے گیلے کپڑوں کے ساتھ طے کرنا شروع کیا تو کچھ ساتھیوں کا حوصلہ کمزور پڑ گیا اور انہوں نے آگے نہ بڑھنے پر زور دینا شروع کر دیا'۔
تاہم جب برفباری کے بعد تمام راستے بند ہوئے تو گاؤں والوں کو فکر لاحق ہوئی اور انہوں نے حکومت سے امداد کا مطالبہ کیا۔ تین راتیں گزر جانے کے بعد گاؤں والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے کا عزم کیا۔
ان کے ایک اور ساتھی ذاکر اللہ نے بتایا کہ 'جب وہ سوار خان اور ان کے ساتھیوں سے ملے تو ان کی حالت شدید سردی اور بھوک سے غیر ہو رہی تھی۔ انہوں نے فوراً ان کے لیے آگ جلانے کا بندوبست کیا۔ اس کے بعد سب کو بحفاظت ان کے گھروں تک پہنچا دیا گیا'۔
سوار کا کہنا تھا کہ 'اگرچہ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی طبیعت سنبھل گئی ہے لیکن ان کے ہاتھ پیر اب بھی پوری طرح سے کام نہیں کر رہے'۔
ہر سال پاکستان کے بالائی علاقوں میں ہونے والی بدترین برفباری یوں ہی شہریوں کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے جبکہ شہریوں کے مطابق حکومتی ادارے تاحال کچھ نہیں کر رہے۔
٭ آپ کا اس حوالے سے کیا خیال ہے؟ اپنی قیمتی رائے کا اظہار ہماری ویب کے فیسبک پیج پر لازمی کریں۔