سعودی عرب میں انسانی آبادی کے ہزاروں سال پُرانے آثار آہستہ آہستہ برآمد ہو رہے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں انسانوں کا بسیرا لاکھوں سال سے ہے۔
العربیہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے جنوب مغربی علاقے جازان میں واقع الریث کے مقام پر پہاڑی غاروں میں 300 سال پرانے گھروں کی کھنڈرات اور باقیات دریافت ہوئے جو وہاں پر انسانوں کی رہائش گاہوں کا پتا دیتے ہیں۔
اس تاریخی مقام پر تیار کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق تین صدیاں پہلے جبال وعرہ کی غاروں میں لوگ اپنی رہائش گاہیں بناتے تھے۔ یہ علاقہ چٹانوں اور درختوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ یہ پہاڑی غار وہاں کے باشندوں کو جنگی درندوں سے تحفظ دینے میں مدد کرتے اور موسم کی سردی اور گرمی سے بھی بچاتے تھے۔ گرمیوں میں یہ غار ٹھنڈک کا احساس دلاتے اور سرگرمیوں میں گرم رہتے۔
ایک مقامی شہری مسرع الریثی نے بتایا کہ ان پہاڑی غاروں میں ان کے والد نے اپنا بچپن گزارا ہے۔ اس سے قبل ان کے دادا بھی وہیں قیام پزیر تھے۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ سب سے پہلے ان غاروں میں کس نے گھر بنائے اور نہ ہی ان گھروں کی حقیقی عمر کا اندازہ ہوا ہے تاہم یہ بات تو طے ہے کہ جبال الریث میں آج بھی آبادی موجود ہے۔الریثی نے بتایا کہ ان کے والد اور دادا نے مجموعی طور پر تقریبا 300 سال کا عرصہ گزارا۔
اس میں 5 افراد رہائش پذیر تھے۔ الریثی کے بقول اس کے والد اور ان کے بھائی ملازمت کے لیے اس غار نما گھر سے نکل کر دوسرے شہروں میں آباد ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ جس دور میں ان کے والد اور دادا نے اس پہاڑی غار کے مکان میں رہائش اختیار کی تو اس وقت اسی طرح کی رہائش گاہوں کا رواج تھا اور یہ فطری تھا۔
انہوں نے بتایا کہ طور نامی غار میں گھر کی تیاری میں پتھروں کا استعمال کیا گیا۔ ان پتھروں کی دیواروں کو اندر اور باہر سے گارے سے لیپا گیا اور لکڑی کے دروازے لگائے گئے۔