دنیا بھرمیں کئی پراسرارمقامات ہیں جوآج بھی دریافت نہیں ہوسکےاور ان مقامات پرسائنسدانوں کی تحقیتات جاری ہیں،سعودی عرب کے صحرا بھی اپنے اندرایسےکئی بے شمار راز سمیٹے ہوئے ہیں، جنہیں اب تک دریافت نہیں کیا جاسکا مگر ماہرین آثارِقد یمہ سعودی عرب کی سرزمین کے قدیم ترین صحراؤں میں جدید ترین ٹیکنا لوجی کی مد د سے ان رازوں پر سے پردا اٹھانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔
عرب نیوز میں شائع کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق آثارقدیمہ کے ماہرین آئی ان دی اسکائی ۔ (eye in the sky)
نامی جدید ٹیکنالوجی اور مصنوعی سیاروں کی مد د سے ان صحراؤں میں موجود پر اسرارچٹا نوں پر تحقیقات کر رہے ہیں ۔سعودی عرب کے علاقوں میں صحرائی پتنگوں کے نام سے منصوب کچھ ایسی چٹانیں موجود ہیں جنہیں دیکھ کر ماہرین بھی حیران ہیں ، ان صحرائی پتنگوں میں مختلف اشکال کی لمبی لمبی پتھر سے بنی دیواریں ہیں جنہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی جاندار ہے جو کھڑا ہے جبکہ اسے دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھ اور پاؤں کے پنجے بھی پتھریلی دیواروں سے بنے ہوئے ہیں ،
کہیں تالے میں موجود سوراخ جیسی پتھریلی چٹانیں فضائی فوٹوگرافی میں نظر آتی ہیں، کچھ محقیقین کے اندازے کے مطابق یہ جانوروں کے ریوڑ کے لئے لگائے جانے والے پھندے ہیں جبکہ اکثر محقیقین کا کہنا ہے کہ یہ قبرستان ہیں۔
برطانوی محقیقین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں خیبر کے علاقے میں موجود یہ تقریبا 917 پتنگیں ہیں جن میں کچھ بیل کی آنکھوں، تالے کے سوراخ، دروازوں ، کسی جاندار اور تکون یا پتنگ کی شکل میں ہیں۔ محقیقین کے مطابق مختلف سائز اور شکل کی یہ شبیہات پا نچویں اور سا تویں صدی سے تعلق رکھتی ہیں ۔
آرکیالوجسٹس کی ٹیم نے ان چٹانوں کے فضائی سروے کئے جن کے مطابق شاید یہاں ریوڑ چلانے والے قبائل بستے تھے اور انہوں نے ہی یہ شکلیں بنائیں۔ واضح رہے کہ ان عجیب و غریب شبیہات کو پہلی جنگ عظیم کے زمانے میں دیکھا گیا تھا ۔
تاہم ان تاریخی چٹانوں پر موجود ان آثار قدیمہ کی فضائی فوٹوگرافی اور سیٹیلائیٹ کی مد د سے تحقیقات کے بعد بھی ان قدیم تہذیبوں کو دریافت کرنے میں سائنسدان بھرپور کوشش کرہے ہیں ۔