حال ہی میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق ہوا ہے اور ان کے درمیان امن معاہدہ طے پایا ہے ، جس کے مطابق نگورونو کارا باغ کا وہ علاقہ جہاں دونوں ممالک کے مابین جھڑپیں چل رہی تھیں ، وہ آذر بائیجان نے چونکہ فتح کرلیا ہے ، لہذا وہ اس کے پاس رہے گا ۔ یوں دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ اس علاقے سے اب آرمینیا کو شکست ہوگئی ہے اور اس کا اثر رسوخ ختم ہوگیا ہے ۔
اس امن معاہدے کے منظر عام پر آنے کے بعد آرمینیا میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں ۔ جنگ بندی کے باوجود لوگ حکومت سے اسلئے ناراض دکھائی دے رہے ہیں ، کیونکہ انہیں اپنا علاقہ آذر بائیجان کو دینا پڑ گیا ہے جوکہ ان کیلئے شکست فاش کے مترادف ہے۔
آرمینیا کی دو اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ معاہدے کے بارے میں پارلیمنٹ میں آکر صفائی دیں۔ دوسری جانب معاہدے کے منظر عام پر آنے کے قبل ہی آرمینیا کی 17 جماعتوں نے وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا تھا۔ آرمینیا کی سیاسی جماعتوں کے لیڈران کے ساتھ ساتھ وہاں کی عوام بھی حکومت سے ناخوش دکھائی دے رہی ہے، یرے وان میں ہزاروں لوگوں نے کاراباغ کی شکست اور معاہدے کے بعد احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نکول پاشنیان سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا، مظاہرین نے توڑپھوڑ بھی کی اور غصے کا اظہار کیا ۔ یاد رہے کہ کارا باغ کا وہ علاقہ ’’شوشہ‘‘ جسے آذربائیجان نے فتح کیا ہے ، دراصل وہ محل وقوع کے حساب سے آرمینیا کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔
وزیر اعظم پاشنیان نے اس معاہدے کو خود اپنے لئے اور اپنے ملک کے لوگوں کیلئے نہایت ہی تکلیف دہ قرار دیا ہے اور کہا کہ جنگ بندی کا فیصلہ زمینی حقائق کا بغور جائزہ لینے کے بعد کیا گیا ہے ۔ ساتھ ہی انہوں نے سوشل میڈیا پر تین مختلف لائیو اپیلیں کیں اور کہا کہ عوام افراتفری کا شکار نہ ہوں اور کارا باغ سے متعلق اس امن معاہدے کو تسلیم کرلیں ۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ان کی فوج نے دہشت گردوں ، آذر بائیجان اور نیٹو ملک ترکی کے خلاف لڑائی کی اور غیرت کے ساتھ اس جنگ میں حصہ لیا ہے۔ ساتھ ہی ان کاکہنا ہے کہ وہ میدان چھوڑ کر نہیں جائیں گے، وہ آرمینیا میں ہی موجود ہیں اور بطور وزیر اعظم اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہی رہیں گے۔
پس منظر:
واضح رہے کہ 27 ستمبرسے آرمینیا اور آذر بائیجان کے درمیان سرحدی تنازع پر کشیدگی شروع ہوئی تھی۔ یہ جنگ دونوں ممالک کے دوران چھ ہفتوں تک جاری رہی اور اس میں 1400 افراد ہلاک ہوئے اور ساتھ ہی سینکڑوں لوگ اس جنگ سے متاثر بھی ہوئے۔ جب ان دونوں ممالک کے درمیان معاملات سنگین ہوئے تو روس نے دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کا کردار نبھایا اور جنگ بندی کروانے میں مدد کی ۔آرمینیا اور آذر بائیجان کے درمیان مذاکرات ہوئے ، جس میں روسی وزیر خارجہ بھی شریک ہوئے، جس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کے فیصلے پر اتفاق ہوگیا ہے۔
جو معاہدہ طے پایا اس کے مطابق کارا باغ کا وہ علاقہ جہاں دونوں ممالک کے مابین جھڑپیں چل رہی تھیں ، وہ آذر بائیجان کے پاس رہے گا یوں آرمینیا کو شکست فاش ہوئی اور آذربائیجان کو اس جنگ میں ترکی کی مدد سے فتح نصیب ہوئی، جس پر آذر بائیجان کی عوام خوش اور آرمینیا کی عوام ناخوش دکھائی دے رہی ہے ۔