نوکری چھوڑیں یا حجاب کرنا چھوڑیں! ان 2 خواتین کی کہانی جو دوران نوکری بھی حجاب کرتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ یہ ان کے مسلمان ہونے کی پہچان ہے

ہماری ویب  |  Oct 15, 2020

نامحرم سے پردہ کرنا یا سر کو ڈھکنا، ہمارے معاشرے کی روایت ہے کیونکہ ہمارے مذہب نے ہمیں بتایا ہے کہ خواتین خود کو ڈھانپ کر رکھیں۔ پاکستان کے قانون اور دیگر کاروباری اداروں میں اس قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں سوائے اس کے کہ لباس غیر اخلاقی نہ ہو۔

لیکن بدقسمتی سے دنیا کے کئی ممالک میں اب بھی مسلمان خواتین کو اپنا سر ڈھانپنے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کچھ ثابت قدم رہتی ہیں جبکہ کچھ ہمت ہار جاتی ہیں۔ بیرونِ ممالک سے اس قسم کی کئی کہانیاں اور خبریں آئیں جس میں کبھی کسی خاتون کو حجاب کرنے پر نوکری سے برطرف کردیا تو کبھی کسی طلباء کو یونیورسٹی میں داخلہ دینے سے انکار کردیا گیا۔

آج ہم آپ کو دو ایسی خواتین کے بارے میں بتانے والے ہیں جو حجاب پہنتی ہیں لیکن ان کی کہانیاں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔

غزالہ احمد

24 سالہ غزالہ احمد جنہوں نے بھارت کی علی گڑھ یونیورسٹی سے شعبہ ابلاغ عامہ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے، حجاب پہنتی ہیں۔ انہوں نے اینکر کی نوکری کے لیے دہلی کے ایک میڈیا چینل میں انٹرویو دیا۔ شروع میں ان کا انٹرویو ٹیلی فون پر لیا گیا بعدازاں انہیں کہا گیا کہ اگر آپ کو نوکری چاہیے تو حجاب اتارنا ہوگا، اس کے ساتھ آپ کو یہ نوکری نہیں مل سکتی۔

غزالہ نے بتایا کہ ''میرے انٹرویو کے بعد مجھے فون کال موصول ہوئی جس میں مجھے مبارکباد دی گئی کہ چینل نے آپ کا انتخاب کرلیا ہے''۔


غزالہ نے بتایا کہ ''جب مجھے تنخواہ اور باقی تمام معاملات سے آگاہ کر دیا گیا تو میں نے انہیں بتایا کہ میں حجاب کرتی ہوں، آپ لوگوں کو اس سے کوئی پریشانی تو نہیں؟ یہ سننا تھا کہ اگلی طرف مکمل خاموشی چھا گئی، اور میں پوچھتی رہی کہ کیا آپ مجھے سن سکتے ہیں؟''

غزالہ کا کہنا تھا کہ ''تقریباً 3 منٹ بعد مجھے فون کرنے والے نے کہا کہ آپ سمجھ نہیں رہیں، بڑے بڑے چینلز نہیں رکھتے، ہماری تو چھوٹا سا ہے۔ غزالہ نے فون کرنے والے چینل کے بندے کو کہا کہ میں پہلے بھی بطور صحافی NDTV اور New Indian Express میں انٹرن رہ چکی ہوں ، انہیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں تھا''۔

ان کا کہنا تھا کہ ''کال کرنے والا خود بھی ایک مسلمان تھا اور وہ مستقل یہ کہے جا رہا تھا کہ ہمارا چینل بند ہوجائے گا، آپ اینکر بننے کے بجائے ہمارے اخبار میں لکھنا شروع کردیں''۔

لیکن غزالہ نے صاف انکار کردیا۔ یوں انہوں نے جاب کے بجائے اپنے حجاب کا انتخاب کیا۔

ھدیٰ المسلمی

ھدیٰ کی کہانی غزالہ سے بالکل مختلف ہے۔ 40 سالہ ھدیٰ جن کا تعلق دبئی سے ہے، پیشے کے اعتبار سے ایک پائلٹ ہیں اور دوران نوکری یہ حجاب کرتی ہیں۔ یہ متحدہ عرب امارات کی پہلی خاتون پائلٹ ہیں۔ آغاز میں انہوں نے جہاز کے عملے سے نوکری کا آغاز کیا تھا، بعدازاں ان کی محنت اور لگن کے باعث 2004 میں یہ پائلٹ منتخب ہوئیں۔


ھدیٰ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ''ایسا نہیں کہ میری کامیابی کا یہ سفر باآسانی گزرا ہو، مجھے بہت سی مشکلات اور متضاد رویوں کا سامنا کرنا پڑا، لوگ مجھے مذاق کا نشانہ بناتے تھے کہ عورت ایک گاڑی نہیں چلا سکتی اور یہ جہاز اڑا رہی ہے۔ لوگوں نے میرے حجاب پر بھی کافی تنقید کی لیکن میں نے کسی ایک کی نہ سنی''۔

انہوں نے بتایا کہ ''میں بھلے خاندان کے تہواروں اور گھر میں حجاب نہ کروں، لیکن جب جاب پر ہوتی ہوں تو حجاب لازمی کرتی ہوں، کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ یہ ہماری روایات کا حصہ ہے اور یہ مسلمان ہونے کی نشانی ہے، مجھے میرے حجاب کرنے پر فخر ہے''۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More