تاریخی قدیم ترین شہر موہن جو دڑو سے متعلق آج بھی کئی سوالات اُٹھتے ہیں کہ یہاں ہزروں سے قبل آخر کیا ایسا سانحہ پیش آیا تھا۔ متعدد ماہرین کی جانب سے آج بھی اس شہر کے تباہ ہونے کے پیچھے کی وجوہات کی تحقیقات کی جارہی ہیں، لیکن موہن جو دڑو کے پس منظر کے بارے میں تمام حقائق جاننے میں ماہرین پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکے۔ یہ جگہ آج کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ تین ہزار سال قبل یہ ایک پھلتا پھولتا اور ترقی یافتہ شہر تھا۔ تاہم ماہرین کے خیال میں دریائے سندھ کے رخ کی تبدیلی، سیلاب، بیرونی حملہ آور یا زلزلہ اہم اس شہر کی تباہی کی اہم وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اسے قدیم مصر اور بین النہرین کی تہذیبوں کا ہم عصر سمجھا جاتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق روچیسٹر انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ریاضی دان نشانت ملک نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ مون سون کے اوقات میں ہونے والی تبدیلی سے خشک سالی کا راج ہوا، جس کے باعث عہدِ کانسی کی شاندار تہذیب 3000 سال قبل اپنے اختتام کو پہنچی۔
نشانت نے شمالی بھارت کے ایک غار میں اُگنے والی معدن ’اسٹیلگمائٹ‘ کے ہم جا ( آئسوٹوپ) کا جائزہ لیا، اس طریقے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک مقام پر بارش کی کتنی مقدار گری ہوگی۔ اس طریقے کو اپناتے ہوئے گزشتہ 5700 سال میں مون سون بارشوں کا مکمل احوال معلوم کیا گیا۔
سائنسدان نشانت ملک کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب وادی سندھ کی تہذیب ترقی کی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی تو اُس وقت خطرناک مون سون بارشوں کا رحجان تھا لیکن جب اس کا زوال شروع ہوا تو اُس دور میں مون سون کاپیٹرن تیزی سے تبدیل ہونے لگا، جس کے بعد پہلے پانی کی قلت پیدا ہوئی پھر فصلیں سوکھ گئیں اور یوں موہن جو دڑو تباہ ہوگیا۔
موہن جو دڑو کی زمین اپنے عروج کے عہد میں یہ 1500 کلومیٹر تک وسیع ہوگئی تھی اور بعض شہروں کی آبادی 60 ہزار افراد سے بھی تجاوز کرچکی تھی۔
جدید تحقیق کے مطابق اس بات کے امکانات مزید قوی ہوگئے ہیں کہ وادی سندھ کی اچانک بربادی خراب موسمیاتی نظام کے سبب ہوئی تھی۔