نگورنو کاراباخ میں دونوں ممالک آذربائیجان اور آرمینیا کی افواج میں شدید جنگ کے بعد مارشل لاء کا نفاذ ہوگیا ہے۔ گولہ باری، بمباری اور فائرنگ میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 23 ہو گئی ہے۔
تاہم آذربائیجان کی وزارت دفاع نے متازع علاقے میں 6 دیہاتوں کو آرمینی فوج کے قبضے سے چھڑوانے کا اعلان بھی کیا ہے۔
آذربائیجان نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کی افواج نے کاراباخ میں اس اسٹریٹجک پہاڑی کا کنٹرول بھی حاصل کرلیا ہے جو یروان سے آرمینیائی باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنے کا راستہ ہے ، اس مسلم علاقے پر مسيحی عليحدگی پسندوں کا قبضہ اس علاقائی تنازعے کا باعث بنا، جبکہ تنازع میں شدت سے روس اور ترکی کے بھی اس جنگ میں شامل ہونے کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔
اس حوالے سے ترک صدر رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ 'آذربائیجان پر ایک اور حملے سے آرمینیا نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ علاقائی امن و امان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، ترکی ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنے آذری بھائیوں کے ساتھ ہے'۔ ترک صدر نے بھرپور حمایت کرتے ہوئے اپنا پیغام جاری کیا کہ 'ترک عوام آذربائیجانی بھائیوں کے ساتھ ہمیشہ کی طرح کھڑے ہیں اور آذربائیجان کی ہر طرح سے مدد کی جائے گی'۔
تاہم پاکستان نے بھی نگورنو کاراباخ میں سلامتی کی بگڑتی صورتحال پر خاصی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
دفترخارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ 'پاکستان آذربائیجانی قوم کے ساتھ کھڑا ہے اور ان کے دفاع کے حق کی حمایت کرتا ہے جبکہ پاکستان سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت آذربائیجان کے مؤقف کی حمایت کرتا ہے'۔