مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست 2019 کو کرفیو نافذ کیا گیا تھا جو کہ تاحال برقرار ہے، اس لاک ڈاؤن کو اب 402 دن ہو چکے ہیں، دن بدن بڑھتے بھارتی مظالم نے لوگوں کا جینا مشکل کردیا ہے، بھارتی حکومت کی سنگ دلی سے کوئی نہیں بچ رہا پھر چاہے وہ ضعیف ہوں یا خاتون، چھوٹا بچہ ہو یا کم عمر لڑکی ہر کوئی ہی بھارتی فوج کے نشانے پر ہے۔
اب تک بھارتی حکومت ہزاروں معصوموں کی جان لے چکی ہے، کشمیر سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کی کہانی ہی انتہائی دردناک اور رلا دینے والی ہے لیکن کچھ لوگوں کی ہمت اور حوصلے کی بھی زبردست داستان موجود ہے۔
آج ہم آپ کو 3 ایسی باہمت بیٹیوں اور ماؤں کی کہانی بتانے والے ہیں جو کشمیر میں ہونے والے مظالم سے کبھی نہیں ڈریں اور تمام دنیا کے لیے بہادری کی مثال قائم کردی۔
1) حمیدہ نعیم
حمیدہ نعیم 65 سالہ پروفیسر ہیں جو کئی عرصہ سے سماجی ترقی کے حوالے سے کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے خواتین کے حقوق کے لیے بہت کام کیا۔ انہوں نے اپنی بہادری اور ہمت سے یہ بتایا کہ عورت کا بھی اس معاشرے میں اتنا ہی مقام ہے جتنا کہ ایک مرد کا، سب سے اچھی بات پروفیسر صاحبہ کی یہ ہے کہ ان کا ماننا ہے ہمیشہ سچ بولو اور اپنے حق کے لیے لڑو، جب تک کہ حق مل نہ جائے۔ پروفیسر حمیدہ نعیم ہر لڑکی اور ہر عورت کے لیے مثال ہیں۔
2) انشاء اشرف
انشاء اشرف 26 سال کی ہیں جنہوں نے کرفیو کے دوران ایک بچے کو جنم دیا، کشمیر میں نافذ سخت لاک ڈاؤن کے دوران یہ حاملہ تھیں جبکہ بچی کی پیدائش کا وقت نزدیک آرہا تھا۔ اس وقت انشاء اپنی ماں کے ساتھ رہ رہی تھیں جب انہیں ایمرجنسی میں اسپتال جانا پڑا۔ اسپتال ان کے گھر سے ٧ کلو میٹر دور تھا، جبکہ انشاء کی حالت نازک تھیں۔ دونوں ماں بیٹی پیدل ہی اسپتال کی جانب چل پڑیں۔ ہر 500 میٹر کی دوری پر چیک پوسٹ ہوا کرتا تھا جہاں یہ رک کر مزید راستے کا پوچھا کرتی تھیں۔ یہ وقت دونوں ماں بیٹی کے لیے شدید تکلیف دہ تھا۔ انشا 6 کلومیٹر پیدل پیدل طے کرنا پڑا۔
انشاء کی ماں اسے نجی اسپتال لے کر گئیں جہاں اس نے 15 منٹ کے اندر اندر جنم دیا۔ مبینہ طور پر اس کے بچے کو ڈلیوری روم سے بغیر کپڑوں کے باہر لے جایا گیا، کیونکہ کرفیو کی وجہ سے، اسپتال میں نوزائیدہ کے کپڑے نہیں تھے۔
3) فضاء شوکت
فضاء کی عمر صرف 15 سال ہے، یہ کشمیر میں رہتی تھیں کیونکہ وہاں ان کا گھر تھا لیکن بد قسمتی سے 11 اگست 2019 کو انہیں اپنا گھر چھوڑنا پڑا کیونکہ ان کی ذہنی حالت کشمیر کے حالات کی وجہ سے شدید خراب ہو گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میں دہلی میں اپنے انکل کے گھر آگئی کیونکہ میرے شہر کے حالات اس قدر خراب تھے کہ میں وہاں زندہ نہ رہ پاتی۔ میری پڑھائی بھی شدید متاثر ہو رہی تھی، اس لیے مجھے اپنا گھر ہی چھوڑنا پڑا'۔