شادی ایک بہت عظیم رشتہ ہے جو صرف دو لوگوں کو ہی نہیں بلکہ دو خاندانوں کو جوڑتا ہے اور شادی کی ہلا گلا کرنے والی رسمیں آپس میں پیار محبت کو بڑھانے کے لیے ہی رکھی جاتی ہیں۔
تمام تر مروتیں ایک طرف مگر جہیز ایک ایسی لعنت ہے جو ماضی سے آج تک ہمارے یہاں ایک لوٹ مار کی رسم ہے جس کو پڑھے لکھے لوگ بھی ادا کررہے ہوتے ہیں کوینکہ بیٹی کا سسرال میں عزت اور بیٹے کی احباب میں عزت کو بڑھاوا دینا سمجھا جارہا ہوتا ہے۔
اسی ماحول میں گذشتہ کچھ روز قبل ایک نوجون نے ٹوئٹر پر ایسی بات ٹوئٹ کردی جس کو پڑھ کر داد دینے والے بھی پیچھے نہ رہے اور تنقید کے نشتر بھی برستے رہے۔
مگر وہ خآص بات تھی کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ جس کو پڑھ کر یوں معلوم ہوا کہ گویا ہمارے ملک و معاشرے میں اگر اس بات پر عمل پیرا کروایا جائے تو کبھی جہیز لعنت نہ لگے گا، والدین اپنی بیٹیوں کو عزت اور محبت سمیت بغیر کسی رسمی دبائو کے آسانی سے رخصت کرکے سنت و شریعت کا فرض ادا کرسکیں گے۔۔۔؟
سعد نامی نوجوان نے ٹوئٹ میں لکھا کہ:
'' اگر لوگ جہیز میں ڈگری مانگنے لگ جائیں تو یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ تمام والدین اپنی بیٹیوں کی تعلیم و ترقی کی جانب فکر کریں گے ان کو پڑھانےا ور اچھی سے اچھی تعلیم دلوانے کی کوشش کریں گے نجائے اس کے کہ وہ بیٹیوں کے جہیز کے فریج، برتن اور فرنیچر کی فکر کریں۔''
جس پر وحید احمد نامی صارف نے جواباً کہا کہ:
'' لڑکوں سے بھی ڈگری کا سوال کیا جانا چاہیئے اور جن کے پاس کسی جامعہ کی سرٹیفائیڈ لیگل ڈگری نہ ہو ان سے شادی کو غیر قانونی قرار دیا جائے تاکہ معاشرے سے ظلم و تشدد اور بڑھتی آبادی کو کنٹرول کیا جاسکے۔''