جب سے کورونا وائرس کا آغاز ہوا تب سے ہی سائنسدان یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ کورونا وائرس چمگادڑوں سے انسانوں میں منتقل ہوا، لیکن کیسے اور کب؟ اس سوال کا جواب تاحال نہیں مل سکا ہے لیکن چینی سائنسدانوں کی جانب سے اس حوالے سے انتہائی ہولناک انکشاف کیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں بتایا ہے کہ کورونا وائرس کی ابتدائی شکل 2012 میں انسانوں میں پھیلی تھی اور 6 لوگ اس سے متاثر ہوئے تھے۔ ان تمام لوگوں میں اس کی علامات بخار، مسلسل کھانسی، پورے جسم میں تکلیف اور سانس لینے میں دشواری کی صورت میں سامنے آئی تھیں۔ یہی علامات موجودہ وبا کے دوران سامنے آ رہی ہیں۔
تاہم کورونا وائرس کی 2012 کی قسم کا حالیہ قسم سے موازنہ کرنے کے بعد سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ جینیاتی اعتبار سے 2012 میں انسانوں کو ہونے والا وائرس موجود وائرس سے 96.2 فیصد مشابہت رکھتا ہے۔ اس دریافت کے بعد سائنسدان اس پرانے وائرس کو موجود وبا کا سبب بننے والے کورونا وائرس کا باپ قرار دے رہے ہیں۔ اس وائرس کو سائنسدانوں نے 2012 میں RaBtCoV/4991 کا نام دیا تھا۔
ایک ماہر کا کہنا ہے کہ یہ وائرس مغربی چین کے شہر موجیانگ میں واقع تانبے کی ایک کان میں پائی جانے والی چمگادڑوں میں موجود ہے۔ یہ کان اب چمگادڑوں سے بھری ہوئی ہے۔ وہیں سے 2012 میں یہ وائرس ان 6 لوگوں کو لگا تھا جن میں سے 3 کی موت واقع ہو گئی تھی۔
اس وقت سائنسدان اس کان سے چمگادڑیں اور ان کی بیٹ وغیرہ ووہان انسٹیٹیوٹ آف ویرالوجی لے گئے تھے اور وہاں تب سے اس وائرس پر تجربات کیے جا رہے تھے۔