آپ نے دنیا میں کئی دلخراش کہانیاں سنی ہوں گی جسے سننے کے بعد یقیناً آُ کے رونگٹے کھڑے ہوئے ہوں گے۔ آج ہم آپ کو اسی قسم کی ایک کہانی بتانے والے ہیں۔
یہ کہانی ہے گجرانوالہ کے رہائشی ماکھو پہلوان کی۔ یہ جب 28 سال کے تھے تو ایک بیماری نے انہیں آن گھیرا جس نے انہیں بستر سے لگا دیا۔ 10 سال وہ بستر پر ہی رہے یہاں تک کہ رشتہ دار، دوستوں، بہنوں اور بھائیوں تک نے ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ ساری جمع پونجی ان کے علاج میں لگ گئی۔
ماکھو پہلوان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ میں پہلے بہت اسمارٹ ہوا کرتا تھا، بھاگتا تھا، میری ٹانگ پہلے سوجنا شروع ہوئی تھی پھر آہستہ آہستہ بہت موٹی ہوتی چلی گئی۔ ٹانگ تقریباِ ٤ من کی ہو گئی تھی۔ میں نے بہت پیسہ لگایا لیکن پھر بھی آرام نہیں آیا۔ مجھے ایک چارپائی پر پھینک دیا تھا۔ میرے تمام رشتہ دار مجھے چھوڑ گئے۔
ماکھو پہلوان کا کہنا تھا کہ میرے حالات بہت خراب ہوگئے تھے، میں بہت غریب تھا۔ میری ایک بہن تھی جو میرے ساتھ رہتی تھی، وہ ہی کھانا دیتی تھی۔
ماکھو پہلوان کا کہنا تھا کہ میں نیشنل لیول پر کبڈی بھی کھیلتا تھا، ان کا کہنا تھا کہ ہم بہت سے اسپتالوں میں میرے مرض کی وجہ سے پھرے۔ لیکن سب نے ہی جواب دے دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے علاج کی وجہ سے میرے ماں پاب کا زیور بک گیا، ہمارا گھر بک گیا، میں مزدور ہوگیا تھا۔
ماکھو پہلوان اپنی اس بیماری سے اتنا تنگ آگئے تھے کہ انہوں نے کہا کہ مجھے زہر ہی دے دو تاکہ اسے کھا کر میں مر جاؤں۔
ماکھو پہلوان نے بتایا کہ ہمارے گاؤں میں ایک میاں رحمت صاحب ہوتے تھے انہوں نے میرا ساتھ دیا، میرے ان سے تعلقات تھے۔ میرے پاس جب کوئی بھی نہیں آرہا ہوتا تھا تو یہ آکر مجھے اٹھاتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ میری مدد ایک عمر نامی آدمی نے کی جو کہ میاں رحمت کے توسط سے مجھ تک پہنچے تھے، انہوں نے میرا علاج کروایا، مجھ پر پیسہ لگایا، میری ٹانگ کاٹی گئی۔ میں ہر وقت انہیں دعائیں دیتا ہوں۔