کورونا وائرس وہ وبا ہے جو دنیا کے کئی ممالک میں بہت تیزی سے پھیلی، ماہرین اور مختلف سائنسدان اس حوالے سے تحقیقات کر رہے ہیں کہ آخر یہ وائرس اتنی تیزی سے کیسے پھیلا تاہم اب لگتا یوں ہے کہ اس سوال کا ممکنہ جواب مل چکا ہے۔
اسکریپر ریسرچ انسٹیٹوٹ کے وائرلوجسٹ ہائریون چوئی نے بتایا کہ ماہرین کی تحقیق اور ہمارے ڈیٹا کو اکھٹا کرنے سے وضاحت ہوتی ہے کہ کورونا وائرس کی یہ قسم کس طرح اتنی تیزی سے یورپ اور امریکا میں پھیلی؟ یہ حادثاتی نہیں تھا۔
نوول کورونا وائرس خود سے اپنی تعداد نہیں بڑھا سکتا، یہ انسانی خلیات میں تقسیم ہوتا ہے اور اپنی حیاتیاتی مشینری سے اپنے ہزاروں نقول بنا لیتا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق کورونا وائرس میں آنے والی تبدیلیوں کی شناخت سے اس کے پھیلاؤ کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے ڈبلیو ایچ او نے کہا تھا کہ وائرس کی اقسام بننے سے وہ زیادہ آسانی سے نہیں پھیلے گا اور نہ ہی لوگوں کو سنگین حد تک بیمار کرسکے گا۔
تحقیق میں محققین نے لیبارٹری میں تجربات کے دوران ثابت کیا کہ ڈی 614 جی نامی میوٹیشن سے وائرس میں اسپائیک یا کانٹے بڑھ گئے، جس سے اس کے لیے خلیات میں داخل ہونا زیادہ آسان ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں یہ پھیلتا ہے۔
واضح رہے اس تحقیق کو ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں کیا گیا بلکہ پری پرنٹ سرور BioRxiv میں شائع کیا گیا یعنی ابھی اس پر دیگر ماہرین نے نظرثانی نہیں کی۔