کورونا کی وبا جس طرح لوگوں کی جسمانی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے وہیں کورونا کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز بھی اس سے بچے ہوئے نہیں ہیں۔ یہ وبا ان کی ذہنی صحت برباد کر رہی ہے۔
اسی حوالے سے آج ہم آپ کو ایک ڈاکٹر کی آپ بیتی سنائیں گے کہ کس طرح وہ مسلسل بے سکونی کا شکار رہتی ہیں۔
ایک نجی اسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں کام کرتی 36 سالہ ڈاکٹر قراۃ العین کا کہنا ہے کہ میں بار بار اپنے 8 سالہ بیٹے کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر بخار چیک کرتی ہوں۔ اگر میرے شوہر بہت زیادہ کھانسنے لگتے ہیں تو ایک ہاتھ سے ان کی نبض چیک کرتی ہوں تو دوسرے ہاتھ سے ان کے منہ میں تھرمامیٹر ڈالتی ہوں۔ میرے شوہر مجھ سے کہتے ہیں کہ مجھے کوئی ہوش ہی نہیں رہتا لیکن انہیں یہ علم ہی نہیں کہ مجھے کیا کچھ معلوم ہے اور روزانہ میں کیا دیکھ کر آتی ہوں۔
ڈاکٹر قراۃ العین کے مطابق ان کے شوہر اور بیٹا گزشتہ 2 ماہ سے گھر سے باہر نہیں نکلے اور انہوں نے گھر کی ملازمہ کو بھی گھر آنے سے منع کردیا ہے۔ لہٰذا وہ خود ہی گھر کی واحد فرد ہیں جسے گھر سے باہر نکلنا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر قراۃ العین کے والدین اسی شہر میں رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ قریب 2 ماہ سے ان سے نہیں ملیں۔ میں ان کے پاس نہیں جاسکتی اسی لیے میں ان سے فون پر بات کرلیتی ہوں اور بعض اوقات مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہوپاتا اس لیے رونا شروع کردیتی ہوں۔
شعبہ صحت سے وابستہ افراد کو مسلسل ایک ہی حالت (کورونا وائرس کے مریضوں) میں رہتے ہوئے زبردست تناؤ اور تھکن کا سامنا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ ڈپریشن، گھبراہٹ (انزائیٹی)، بے خوابی، یہاں تک کہ صدماتی تناؤ کے مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں۔