’’اردو ڈراما کے سماجی و ثقافتی اثرات ‘‘ڈاکٹر شاہد ضمیر کی تحقیق کو سندِ اعتبار عطا

ہماری ویب  |  May 08, 2015

وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں دوسرے پی ایچ ڈی ہونے کا اعزاز حاصل
اردو لغت بورڈ سے تیس سالہ وابستگی کی بدولت اب ڈاکٹر شاہد ضمیرچیف ایڈیٹر کے لیے بہترین آپشن ہیں

(کراچی)پاکستان میں اردو ڈراما نشیب و فراز سے گزر کر آج ایک مرتبہ پھرمقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔اردو ڈراما کے عروج و زوال کی داستان،عہدِ زریں اور کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرنے کی روداد کو ریسرچ اسکالر شاہد الدین نے موضوعِ تحقیق بنایا اور ’’اردو ڈراما کے سماجی و ثقافتی اثرات‘‘(الیکٹرانک میڈیا کے خصوصی حوالے سے۱۹۴۷ ؁ء تا ۲۰۱۳؁ء)کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا۔جس پر مؤرخہ۱۴۔۱۶؍فروری۲۰۱۵؁ء کووائس چانسلرڈاکٹر ظفر اقبال کی زیر صدارت گریجویٹ ریسرچ مینجمنٹ کونسل کے تیسویں اجلاس میں تحقیق کو سند اعتبار عطا کرتے ہوئے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کرنے کا اعلان کیا اور ریسرچ اسکالر شاہد الدین(ڈاکٹر شاہدضمیر)کو وفاقی جامعہ اردو کے شعبۂ اردو میں دوسرے پی ایچ ڈی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوگیا۔وفاقی اردو کالج کو ۲۰۰۱؁ء میں یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا اس وقت سے وفاقی اردو یونیورسٹی میں شعبۂ اردو میں صرف ایک پی ایچ ڈی کا مقالہ منظور کیا گیا تھا۔
 


’’اردو ڈراما کے سماجی و ثقافتی اثرات‘‘الیکٹرانک میڈیا میں ریڈیائی ڈراماسے لے کر تاحال ٹیلی ڈراما کے طریقۂ کار،اثرات،مقبولیت اور ڈراما انڈسٹری کو درپیش مسائل کا انتہائی جامعیت سے احاطہ کرتاہے ۔خصوصی طور پر نامور اہلِ قلم کی ریڈیائی ڈراما نگاری کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے جیسے ممتاز قانون دان جسٹس ریٹائرڈ حاذق الخیری،معروف محقق و ماہر تعلیم ڈاکٹر اسلم فرخی ،چیئرمین انٹرمیڈیٹ بورڈپروفیسر انوار احمد زئی ودیگر جو اپنے اپنے شعبوں میں ممتاز مقام رکھتے ہیں اور ان کی وجہ شہرت ڈراما نگاری نہیں ہے۔یہ مقالہ اشفاق احمد ،امجد اسلام امجد،کمال احمد رضوی،انور مقصود،حسینہ معین جیسے دیگرممتاز ڈراما نگاروں کے کام کی مکمل تفصیل اور جدید قلم کاروں کے تذکرے پر محیط ہے۔ڈراما کے تاریخی پس منظر کے حوالے سے قدیم یونان اور قدیم ہندستان کے تمام اسٹیج اور تھیٹر میں پیش کیے جانے والے ڈراموں کا تحقیقی ومعاشرے پر اثر انداز ہونے والے عوامل کی روشنی میں تجزیہ کیا گیا ہے۔مقالے میں ڈراما انڈسٹری اورپاکستان کے تمام صوبوں کے ثقافتی پس منظر ،درپیش مسائل،پیمرا قوانین اورزمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے قابلِ عمل تجاویز پیش کی گئی ہیں جن کو پیشِ نظر رکھ کر ٹھوس عملی اقدامات کیے جاسکتے ہیں جو ڈراما انڈسٹری کی بحالی،بقا اور وقار کو برقرار رکھنے میں ممد و معاون ثابت ہوں گے۔واضح رہے کہ یہ مقالہ موضوع کے لحاظ سے خصوصی انفرادیت کا حامل ہے جس میں اپ ٹو ڈیٹ تحقیق پیش کی گئی ہے اور اہمیت و افادیت کے پیش نظر اس کا کتابی صورت میں منظر عام پرآنا بے حد ضروری ہے۔

ڈاکٹر شاہد ضمیر نے۱۹۸۴؁ء کراچی یونیورسٹی سے ایم۔اے اردو ادب،۱۹۸۷؁ء میں ایم۔اے لسانیات(فرسٹ کلاس پوزیشن)اور۲۰۰۰؁ء میں بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ایم۔اے کیا۔پھر وفاقی اردو یونیورسٹی میں ایم فل؍پی ایچ ڈی کے لیے انرولمنٹ کروایا اوربالآخر دس برس کی محنت شاقہ کے بعددسمبر ۲۰۱۳؁ء میں ڈاکٹر سمیرا بشیر کی زیر نگرانی چھ سو صفحات پر مشتمل پی۔ایچ۔ڈی کا مقالہ مکمل کر کے جمع کروایا ۔مقالے کی جانچ پرکھ بطور بیرونی ماہر بنارس ہندو یونیورسٹی کے پروفیسرڈاکٹر نسیم احمد صاحب اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب صاحب نے کی اورجامعہ اردو کی جانب سے زبانی امتحان بیرونی ممتحن کی حیثیت سے ڈاکٹر جاوید اقبال(ڈین فیکلٹی آف آرٹس،جامشورو یونیورسٹی ،سندھ)نے لیا ۔ ان ماہرین کی سفارشات اور ایچ ای سی کے مطلوبہ معیار پر پورا اترنے پرپی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری ایورڈ کی گئی۔ جبکہ ڈاکٹر شاہد ضمیر کے تحقیقی مقالات کاایچ ای سی سے منظور شدہ ریسرچ جرنلز میں اشاعت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

تعلیمی سفر کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر شاہد ضمیرگذشتہ تیس برسوں سے اردو لغت بورڈ سے وابستہ ہیں اور بحیثیت اسکالر لغت نویسی کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور اب ڈگری ایوارڈ ہونے کے بعد چیف ایڈیٹر کے عہدے کے لیے مضبوط امیدوار ہیں۔اردو لغت بورڈ میں گذشتہ چار برسوں سے باضابطہ چیف ایڈیٹر موجود نہیں فی الحال انتظامی طور پر اضافی چارج مزارمینجمنٹ کے محمد عارف صاحب کے پاس ہے جو خود بھی جلد از جلد متعلقہ چیف ایڈیٹر کے تقرر کے خواہاں ہیں تاکہ یہ انتہائی اہم علمی و ادبی ادارہ اپنی خدمات بھرپور طریقے سے جاری رکھ سکے اور اب ڈاکٹر شاہدضمیر کی صورت میں اس حوالے سے بہترین آپشن موجود ہے۔
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More